سیاست پر لکھنے سے بہتر ہے کہ سر سید کو یاد کر لیا جائے۔اکتوبر یوں بھی سر سید کی پیدائش کا مہینہ ہے جو ہمیں یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے فراموش کردہ عظیم محسن کو یاد کر لیں۔ مسافران لندن میرے ہاتھ میں ہے، میں اس مختصر سے سفرنامے کے کئی دلچسپ قصے کئی بار پڑھ چکی۔ ہوں اس مختصر کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر طویل بات ہو سکتی ہے ،جس پر لکھا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی ہر سطر کے پیچھے سر سید کا مسلمانان ہند کی قسمت بدلنے کا جذبہ اپنی توانائیوں کے ساتھ چھلکتا نظر آتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے انہوں نے ایک زندگی میں کیسے کیسے جناتی منصوبے مسلمانان برصغیر کی بہبود اور فلاح کے لیے سرانجام دیئے۔ سرسید نے مسلمانوں کی حالت زار پر جیسا کرب اور کڑھن محسوس کی، پھر ان کو جہالت اور غفلت کی گھاٹیوں سے نکالنے کے لئے عملی طور ایک جہاد کی صورت زندگی بسر کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے، یہ اللہ کا مسلمانان ہند پر احسان عظیم ہے کہ انہیں سر سید جیسا رہنما نصیب ہوا۔ لندن کی مسافرت کا ارادہ سر سید نے جن حالات میں کیا وہ بھی حیران کن ہے۔ سر سید کے صاحبزادے ہندوستان کے انہیںہونہار طلباء میں شامل تھے جن کو برطانیہ کی حکومت کی طرف سے چھ ہزار روپے وظیفہ ملا کہ وہ برطانیہ جاکر اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہیں دنوں ولیم میور کی متنازع کتاب لائف آف محمد کی وجہ سے سرسید کی دینی غیرت جوش میں آئی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ اس جسارت کا جواب مدلل انداز میں تحقیق کر کے دیا جائے لیکن اس کے لیے جن مستند حوالوں کی ضرورت تھی وہ ہندوستان میں نہ تھے تو انھوں نے بھی اپنے صاحبزادے کے ساتھ برطانیہ جانے کا ارادہ باندھا۔ اب اخراجات کا معاملہ درپیش تھا جس کے لیے انہوں نے اپنا بیش قیمت کتب خانہ کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا اور پھر اپنے مکان کو رہن رکھ کر رقم حاصل کی، جس سے سفر کے اخراجات برداشت کیے۔اللہ اللہ کیسے کیسے محسن اللہ نے اس قوم کے لئے پیدا کئے۔ احساس ذمہ داری کی انتہا ہے کہ سرسید اپنا مکان گروی رکھ کر صرف اس مقصد کے لیے پردیس کا سفر اختیار کرتے ہیں کہ لائف آف محمد کا مستند جواب دے سکیں۔ اس سفر میں ان کے دونوں صاحبزادے محمود اور حامد کے علاوہ ان کا قدیمی خدمت گار چھجو، بھی ہمراہ تھا۔ یہ سفر نامہ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ میں قسط وار چھپتا رہا۔مگر اس پر مسلمانوں نے ہی اتنی تنقید کی کہ سر سید نے اسے لکھنا بند کردیا۔تنقید کی وجہ یہ تھی کہ سرسید جب دوسری اقوام کو علم اور تہذیب سے آراستہ اور ترقی کرتے دیکھتے تو ہندوستان کے مسلمانوں پر کھل کے تنقید کرتے جو ہندوستان کے مسلمانوں کو اتنی ناگوار گزری انہوں نے مشہور کر دیا کہ سرسید برطانیہ جا کر ملحد ہوگئے ہیں۔سر سید کے خلاف اس قدر پروپیگینڈا ہوا کہ بعض کم شعور رکھنے والا مسلمانوں کا طبقہ سمجھنے لگا سر سیدکرسٹن ہو گئے ہیں۔اسی تنقید سے دلبرداشتہ ہوکر سر سید نے اخبار کو اپنے سفر نامہ بھیجنا بند کر دیا۔سر سید نے اپنے سفر کا آغاز بنارس سے کیا وہ بنارس سے بمبئی عدن سویز فرانس پیرس اور پھر لندن پہنچے۔راستے کے تمام شہروں اور ملکوں میں جہاں جہاں وہ رکے جن سے ملاقاتیں کیں اس کا دلچسپ احوال بھی اس سفر نامے کا حصہ بنایا۔ ممبئی میں انہوں نے ایک میمن سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ یہ آپ نے جو اپنے چھوٹے چھوٹے مدرسہ بنا رکھے ہیں ان کو موقوف کرکے سب مل کر ایک بہت بڑا عربی کالج بنا دیں نوجوان تعلیم حاصل کریں مگر ان صاحب نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔سر سید لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے آباء و اجداد کی یاد میں چھوٹے چھوٹے مدرسے کا نام دیے ہیں، انہیں صرف نمود اور نمائش سے غرض ہے۔ سر سید جب کسی خوشی کی محفل میں شریک ہوتے تو ان کے ذہن میں اس کے موازنے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی بد حالی کی تصویر نمایاں ہوجاتی اس طرح کسی قوم کی خوشحالی دیکھتے تو مسلمانوں کی حالت زار یاد آتی اور ان کی روح تڑپ جاتی۔ سفر کے دوران جب کسی پارسی کو اردو میں بات کرتے دیکھا تو ان کا دل خوشی سے کھل اٹھا۔اس زمانے میں بھی لوگ یورپ سیرو تفریح اور آب وہوا کی تبدیلی کے لیے یورپ جاتے مگر سر سید وہاں بھی اپنی قوم کے غم میں مبتلا رہے۔لندن میں سر سید مسٹر جے لڈلم کے گھر میں ایک طرح کے پے انگ گیسٹ کی طرح رہے وہ ان کے علم ،تہذیب ،شائشتگی کی بہت تعریف کرتے ہیں اور پھر اس کا موازنہ اپنے ہموطنوں کے ساتھ کے ساتھ کرکے کڑھتے ہیں۔وہ ایک ورکر لڑکی کا ذکر کرتے ہیں جو قلیل تنخواہ کے باوجود کتاب اور اخبار خرید کر پڑھتی ہے۔ سر سید لکھتے ہیں کہ انگلستان میں کیب مین اور کوچوان اپنی گدی کے نیچے کوئی اخبار یا کتاب ضرور رکھتے ہیں جہاں موقع ملتا ہے یہ کتاب نکال کر پڑھنے لگتے ہیں۔پھر اس چیز کا موازنہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ علم اور کتاب سے دور ہیں اور یہی ان کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ سرسید بمبئی سے 24 دن میں لندن پہنچے تھے سر سید نے پورے سترہ مہینہ لندن میں قیام کیا اور شب و روز ان کاموں میں جتے رہے جن کے لیے انہوں نے یہ سفر اختیار کیا تھا۔ انہیں وہاں کی خاص خاص تقریبات میں بھی بلایا جاتا تھا۔لندن کی اشرافیہ کے ساتھ انھوں نے کئی ڈنر کیے جن میں ڈیوک بھی مدعو تھے۔سرسید لندن کے علمی مجلسوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ ( جاری ہے)