سیاست کے ہنگام میں،میں نے سر سید پر کالم لکھنا شروع کیا مگر درمیان میں صدف نعیم کی ناگہانی موت پر کالم لکھنا پڑا یہ اس کالم کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ شائع ہوا تو کچھ پڑھنے والوں نے اس کتاب میں دلچسپی ظاہر کی اور کہا کہ وہ یہ کتاب کہاں سے خرید سکتے ہیں یقین جانیے دلی خوشی ہوئی کہ آج بھی نوجوان ان رفتگا ں میں دلچسپی رکھتے جن کے احسانات ہماری نسلوں پر ہیں اور ان عظیم رفتگاں میںہمارے سر سید صاحب پہلی صف میں کھڑے ہیں ۔مسافران لندن کا جو نسخہ میرے پاس ہے اسے مجلس ترقی ادب نے شائع کیا تھا یہ کتاب اس دور میں چھپی تھی جب ممتاز شاعر شہزاد احمد مجلس ترقی ادب کے چیئرمین تھے۔سر سید کے دلچسپ سفر نامے مسافران لندن سے چند دلپذیر ٹکڑے۔سرسید کا یہ سفر چونکہ بحری جہاز پر تھا اور یہ سفر کئی دنوں پر محیط تھا اس دلچسپ سفر نامے کا آغاز اس بحری جہاز کے اندر پیش آنے والے مشاہدات اور ملاقاتوں سے ہی ہو جاتا ہے۔ ایک سرخی ہے جہاز میں عیسائیوں کی نماز : لکھتے ہیں جہاز میں ایک انگریز نے نماز پڑھائی جہاز کی چھت پر سب جمع ہوگئے کرسیوں اور بنچوں پر بیٹھ گئے اور اپنے دستور کے موافق نماز ادا کی۔میں بھی اس مقام کے قریب خاموش مؤدب کھڑا تھا کیونکہ خدا کا نام ہر طرح سے ادب کے لائق ہے۔جہاز میں ایک حسرت ناک موت:ایک اور جہاز کے کپتان اس جہاز میں سفر کررہے تھے وہ بیمار ہو گئے ان کے دوستوں نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح انہیں ولایت پہنچایا جائے وہ بے ہوش تھے اور رات بھر جینے کی بھی توقع نہ تھی۔ گیارہویں تاریخ رات کے وقت وہ مر گئے۔دوپہر کے بعد ان کا جنازہ تختہ پر بنا کر لائے اس پر جہاز کا نشان یعنی پھریرا ڈال دیا دونوں پاؤں میں لوہے کے دو گولے باندھ دیے اس تختے کو جہاز کے کنارے پر رکھا اور پادری صاحب نے جنازہ نماز پڑھی اور تختے کو کھڑا کیا وہ لاش پاؤں کے بل سمندر میں کود پڑی اور سب کی نگاہوں سے غائب ہوگئی میرے دل پر اس بے کسی کی موت اور اس طرح جنازہ سمندر میں ڈال دینے کا ایک عجب اثر پیدا ہوا اور فی الفور یہ شعر میرے دل میں گزرا۔ پھر ایک فارسی شعر درج ہے ۔ ترجمہ :جب آدمی مر گیا تو پھر جو چاہو سو کرو اب اسے جلاؤ، پانی میں ڈالو ،خاک میں دباؤ جو ہونا تھا وہ ہو چکا جو ہونا ہے وہ ہوگا۔ سرزمین عرب کا دکھائی دینا :چھ دن اور چھ رات اسی طرح پانی میں چلے گئے تب 16 اپریل بروز جمعہ کو علی الصبح نماز فجر زمین مقدس عرب دکھائی دی ،ہم اسے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے ہمارے محسن اور شفیق میجر ڈاڈ صاحب نے مجھ سے آن کر کہا پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زمین دیکھی میں نے کہا ہاں دیکھی ہے یہی ہے جو" عربی دی بلیسڈ" یعنی رحمت کیا گیا عرب کہلاتا ہے۔سرسید نے لندن میں قیام کے دوران بہت سے خطوط اپنے گہرے دوست مولوی سید مہدی علی خان کو لکھے تھے ان خطوط سے بھی سر سید کے لندن میں قیام کے حالات معلوم ہوتے ہیں ایک خط میں لکھتے ہیں:کتب خانہ انڈیا آفس میں نے دیکھا ہوش جاتے رہے، کتب خانہ نہیں ہے کتابوں کا شہر ہے۔مجھے وہاں جانے کے پڑھنے کی جو چاہو انکل کس سے بھی اجازت ہوگی ابھی کتب خانہ برٹش میوزیم نہیں دیکھا سنا ہے وہ اس سے بھی بہت بڑا ہے۔ سر سید ے لندن کا سفر اس لیے اختیار کیا تھا کہ وہ ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کا جواب دے سکیں۔وہ برٹش لائبریری اور انڈیا آفس کی کتابوں سے استفادہ کرتے اور دن رات اس تحقیقی کام میں صرف کرتے۔ خط میں لکھتے ہیں ۔’’میں روز و شب کام میں مصروف ہوں۔سب کام چھوڑ دیا ہے ، لکھتے لکھتے کمر درد کرنے لگتی ہے۔ ادھر فکر ترتیب مضامین کتاب ،ادھر فکر جواب اعتراضات، ادھرفکر تنقیح و تصحیح روایات میں مبتلا رہتا ہوں اور کسی شخص کے مددگار نہ ہونے سے یہ کام اور بھی سخت ہو گیا ہے۔ ادھر جب حساب کتاب دیکھتا ہوں تو جان نکل جاتی ہے کہ اللہ اللہ لکھنا اور چھپوانا تو شروع کردیا روپیہ کہاں سے آوے گا۔مسلمان البتہ آستینیں چڑھا کر اس باب میں لڑنے کو تیار ہوں گے کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا مت کھاؤ مگر جب کہو کہ مذہبی تائید میں کچھ روپیہ خرچ کرو تو جان بچائیں گے "ایک اور خط میں سرسید کتاب کی تیاری کے سلسلے میں سرمائے کی فراہمی میں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مجھے اعانت کی ضرورت ہے۔ کتاب پر کم سے کم دو ڈھائی ہزار روپیہ خرچ ہوگا۔آپ وہاں احباب مخلصین سے چندہ کیجئے اور کتاب تیار ہو چکنے کے بعد جس قدر کہ اس نے دیا ہے اسی قدر کی کتابیں اس کو دے دی جاویں گی۔اسی خط میں سر سید اپنے چند مخلص دوستوں کے نام لکھتے ہیں کہ میں ان کو خط لکھوں گا کہ مجھے سو سو روپیہ بھیج دیں مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ضرور بھیجیں گے۔حیرت ہوتی ہے سر سید کا جذبہ اپنی قوم کے لئے مسلمانان ہند کے لئے کس قدر توانا تھا ان کی زندگی کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانان ہند کو شعور، جدید تعلیم، تہذیب اور ترقی کی طرف لا سکیں۔پھر لائف آف محمد جیسی متنازع کتاب چھپنے کے بعد انہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود بطور ایک مسلمان کے جو ذمہ داری محسوس کی وہ ہم جیسے کمزور ،گفتار کے غازی مسلمانوں کے لیے حیران کن ہے ۔اپنا گھر رہن رکھا قرض اٹھایا کتب خانہ بیچا اور اپنے بیٹوں کے ہمراہ برطانیہ کا سفر کیا ۔یہ ایک مثال ہے اس پر بھی انہوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے طعنے سہے ان پر فتوے بھی لگے لیکن کوئی بھی مشکل ان کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکی اور سرسید وہی کرتے رہے جسے وہ حق سمجھتے تھے۔(جاری ہے)