پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ خبر ہمارے تعلیمی اور سیاسی منتظمین کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جس معاشرے میں یہ دامن ہی چاک ہو، وہاں کیا خاک ترقی ہوگی؟ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2013ء سے اب تک 1.5 ارب ڈالر پاکستانی تعلیمی نظام پر خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن نتیجہ بالکل برعکس ! صرف پنجاب میں ستر لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں تو باقی صوبوں کی ابتری کا اندازہ خود لگا لیں کہ ہم باقی دنیا کا مقابلہ کیونکر کر سکتے ہیں ؟ غربت،مہنگائی ، بیروزگاری اور بے تحاشہ آبادی جیسے مسائل نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اپنا تعلیمی نظام بہترین بنا لیا اور معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم کر لیا اس قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکا۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے یہ کر دکھایا کیونکہ اسکے پیچھے وہ تحریک اور فکر کارفرما تھی جو آگے سے آگے لے جاتی ہے اور ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل برعکس ہے تعلیم ہماری ترجیح ہے نا ترقی۔ ہمارے وہ بچے جو مستقبل کے معمار ہیں جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وہ سکول سے باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل ورکشاپ پر سائکلیں ٹھیک کررہا ہے تو کوئی ریڑھی لگائے پھل سبزی فروخت کر رہا ہے، کوئی غبارے بیچ رہا ہے تو کوئی قلم بیچ رہا ہے۔ چائلڈ لیبر بھی ہمارے ہاں ایک دوسرا بڑا مسئلہ ہے، جسے حل کر نے میں ہم ناکام رہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں بچوں کی تعداد بڑھانے کیلیے تعلیمی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کی انرولمنٹ بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرئے۔ محمکہ تعلیم میں ایک ایسا شعبہ مختص کیا جائے جسکی ذمہ داری ہو کہ اسکول سے باہر بچوں کو اسکول لایا جائے اور باقاعدہ تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ وہ بچے جو اسکول نہیں جاتے یا اسکول سے بھاگ جاتے ہیں انکی واپسی کے لیے الگ محکمہ تعلیم بنایا جائے۔ اس حوالے سے بلاشبہ اسلام آباد پولیس نے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پولیس نے امن و عامہ کی صورتحال کیساتھ ساتھ اپنے شہریوں کو سوشل سروس بھی فراہم کی ہے جسکے تحت اب تک سینکڑوں بچوں کو اسکول کی راہ دکھائی گئی ہے۔خصوصاً دن کے وقت اسکول کے اوقات میں بھاگنے والے بچوں کو اسلام آباد کے مختلف مقامات سے پکڑ کر اسکول انتظامیہ کے حوالے کیا گیا اور ان میں اکثریت کالج کے طلباء کی ہے۔ اسلام آباد سیف سٹی اتھارٹی کے نصب شدہ کیمروں کی مدد سے مختلف بازاروں ، شاہراہوں ، مارکیٹس اور سیر و تفریح کے مقامات سے اسکول یونیفارم میں ملبوس سینکڑوں بچوں کو پولیس والدین اور اسکول انتظامیہ کے حوالے کر چکی ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی ان سرگرمیوں سے ناواقف ہے کہ انکے بچے اسکول کے اوقات میں سکول سے بھاگ جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی ، نشے اور بری صحبت کا شکار بچے جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور کسی کو خبر نہیں۔ اس ضمن میں اسکول انتظامیہ پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ آخر اسکول کے اوقات میں بچے کیسے بھاگ سکتے ہیں اور ان کی کڑی نگرانی کیوں نہیں کی جاتی؟ یا اس فرسودہ اور گھسے پٹے تعلیمی نظام سے راہ فرار اختیار کرنے والے بچوں کے ہاتھوں میں اسگریٹ ، نشہ اور ہیروئن کس نے تھمائی اور اسکا حقیقی زمہ دار کون ہے ؟ اس حوالے سے ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ اسکول انتظامیہ اور والدین کی یکساں ذمہ داری ہے کہ بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اگر بچہ سکول یونیفارم میں ملبوس کلاس کی بجائے پارکوں میں گھوم رہا ہے تو یقیناً والدین یا اسکول انتظامیہ اسکی جوابدہ ہے۔ اب تک ڈولفن فورسز کے اہلکار سینکڑوں بچوں کو اسکول یا کالج انتظامیہ کے حوالے کر چکے ہیں نیز ایسے بچوں کے کوائف بھی پولیس اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے کہ کہیں یہ کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مبتلا نا ہوں۔ اسلام آباد پولیس کا یہ قابل تحسین اقدام دوسروں کے لیے بھی قابل تقلید نمونہ ہے۔ اگر باقی شہروں اور صوبوں کی پولیس انتظامیہ بھی اپنے اپنے شہروں میں کڑی نظر رکھے تو سینکڑوں بچوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے ساتھ محمکہ تعلیم بھی نمایاں کردار ادا کرئے تو محنت مزدوری کرنے والے ہزاروں بچوں کو اسکول بھیجا جا سکتا ہے۔ غربت کے مارے والدین جو بچوں کی تعلیم پر مزدوری کو ترجیح دیتے ہیں انکے لیے باقاعدہ نظام مرتب کیا جائے۔الگ اسکول اور وظیفے مقرر کیے جائیں تاکہ انکے ہاتھوں میں اوزارکی بجائے قلم تھمایا جاسکے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو تعلیم اور بہترین تربیت سے آراستہ کرکے ترقی کے کئی زینے طے کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی ، مالی اور سماجی بحران کبھی بھی حل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم جدید اور اعلی تعلیم کو اپنے بچوں کیلئے آسان نہیں بنائیں گے۔ ہمارے نوجوانوں ہمارا مستقبل ہیں اور مستقبل کے معماروں کو اگر آج تعلیم و تربیت اور ہنر مندی سے آراستہ نہ کیا گیا تو یقین مانیے ہمارا مستقبل مزید تاریک اور ڈراؤنا ہو گا۔