کنفیوشس نے کہا تھا:دنیا میں سب سے بڑا بوجھ ’’باپ کے کندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کے جنازہ کا ہوتا ہے‘‘۔ اگر معصوم اولاد کے سامنے باپ کو گولی مار دی جائے، تو اس کی تکلیف کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نایاب ۔جوان اولاد کی موت جس طرح باپ کی کمر دہری کر دیتی ہے،ایسے ہی معصوم اولاد زندگی بھر اس دکھ میں مبتلا رہتی ہے۔معصوم ذہن پر کرب کے لمحات نقش۔یادوں کی کپکپاتی لو بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اسلم کولسری نے کہا تھا : بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے معظم گوندل کے بیٹے اب کس کا ہاتھ پکڑ کر بازار جائیں گے ،کسے کہیں گے ،بابا چیز لا دو ،کس کے ساتھ اٹھکیلیاں کریں گے ۔کسے نازو نخرے دکھائیں گے ۔کس کے کندھوں پر بیٹھ کرجھولے لیں گے ۔ان سوالوں نے ہر کسی سے راتوں کی نیند اور دنوں کاسکون چھین لیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک تصویر میں معظم گوندل کی میت کے پاس تینوں معصوم بچے کھڑے ہوئے ہیں،بڑا بیٹا باپ پر جھکا ہوا،شاید کوئی بات کر رہا،اس معصوم کو کیا علم کہ اب بابا جواب نہیں دیں گے ۔درمیان والا سر کی جانب جبکہ سب سے چھوٹا پائوں کی جانب کھڑاہے۔اس تصویر کو جب بھی دیکھا،آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ایک اخبار نویس ہونے کے ناطے سوشل میڈیا سے قطع تعلق مشکل ہے،لیکن جب بھی یہ تصویر سامنے آئی دل بجھ گیا۔قرآن کہتا ہے:جب سورج کی روشنی لپیٹ دی جائے گی ،جب ستارے گر جائیں گے،جب پہاڑ چلائے جائیں گے،جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا ۔بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔کس گناہ میں ماری گئی ۔یہ سوال ریاست پاکستان کے والی وارثوں سے بھی ہو گا۔کہ معظم گوندل کو کس جرم میں قتل کیا گیا۔تب صرف حکم ربی چلے گا، اور کچھ نہیں ۔ اللہ کے آخری رسول ؐ نے اچانک موت سے پناہ مانگی ہے،جوانی کی موت ایک ایسی چیز ہوتی ہے، جو دوسروں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جوانی میں انسانی طاقت، خوبصورتی، صحت اور جذبات اپنے نقطہ عروج پر ہوتے ہیں۔ جینے کی امنگ، کچھ کرنے کا جذبہ، ان تھک جدوجہد کا حوصلہ، مسلسل محنت، کام کرنے کی استعداد لیکن جب معصوم بچے اور جوان بیوی کوپیچھے چھوڑا جائے ،اس دکھ سے اہل علاقہ بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں ۔ پروردگار زندگی کا محافظ ہے مگر تدبیر کا بھی اسی نے حکم دیا ہے ۔لانگ مارچ کی سیکورٹی پر بھی ہزاروں سوال ہیں ۔جہاں جہاں سے کنٹینر گزرنا تھا،اس کی قریبی بلڈنگوں پرسیکورٹی والوں کو تعینات نہ کرنا بھی غفلت ہے ۔ مگرنقار خانے میں طوطی کی آواز کبھی کسی نے سنی ہے ،جو اب کوئی سنے گا۔ معظم گوندل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خاں کاجنون کی حد تک دیوانہ تھا۔آبائی علاقے سے دوستوں کے ہمراہ لانگ مارچ میں شریک ہوا،مگر جب فائرنگ ہوئی تولنگوٹیے بھی بھاگ گئے ،مگرجگر کے ٹکڑے لاش سے ہٹے نہیں ۔ خون کا رشتہ ہی لازوال ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے معظم کے سر میں گولی لگی ،جس کے بعد وہ بچوں سے آخری بات بھی نہ کر سکا۔پاکستانی سیاست کی اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے۔جیسے جیسے یہ معصوم بڑے ہوں گے ،تو ان کے خیالات بھی پختہ ہوتے جائیں گے ۔ جب یہ معصوم اپنے لہولہان باپ کو پکار رہے تھے۔تو کوئی انھیں بتانے کے لیے بھی موجود نہ تھا کہ وہ اب نہیں بولے گا ۔مرثیہ لکھنے کے لیے بھی حوصلہ چاہیے ۔دکھ اس بات کا ہے کہ ابھی تک ان معصوم بچوں کو دلاسہ دینے کے لیے نہ تو عمران خاں نے فون کیا ،شاہ محمود قریشی کوفرصت ملی،نہ ہی اسد عمر یا کوئی قد آور لیڈر ان کے گھر پہنچا ۔ بس ملال اور گداز سے بھرا سناٹا ہے۔کیا کسی نے سوچا کہ ان بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا ان بچوں کو کبھی یہ جواب ملے گا کہ ان کے والد کو کس جرم میں قتل کیا گیا ۔صرف یہ ایک معظم گوندل ہی نہیں، اس جیسے ہزاروں ایسے کارکن ہیں جن کی زندگیاں سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔یہ معصوم کبھی بھی اس واقعے کو فراموش نہیںکر سکیں گے؟ یہ منظر ان کی آنکھوں سے کبھی بھی غائب نہیں ہو گا ۔سوتے جاگتے انھیں گولیوں کی آوازیں ہی سنائی دیں گی ۔ یہ معصوم ساری عمر اپنے والد کو گلے لگانے کے لیے ترس جائیں گے۔دوسروں کے بچوں کو باپ کے ساتھ بازار جاتے دیکھ کر ان کے دل دکھی ہوں گے ۔کیا ان بچوں کو کبھی انصاف ملے گا ؟شاید کبھی نہیں ۔ابھی تک ایف آئی آر نہیں کٹی ،ملزم کے بارے میں بھی ابہام پیدا کیا جا رہا ہے ۔یاد رکھیں !عدل ان معاشروں کو نصیب نہیں ہوتا‘ہر طرف جہاں جذبات کی آگ بھڑک رہی ہو۔ لیاقت علی خان اوربینظیر بھٹوکے قتل کا کیا بنا ، سانحہ کارساز کے شہدا کا کیا بنا ؟تحمل، تدبر اور ٹھنڈے دل سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل مسئلے کا حل نہیں ۔دانشوروں ،اختیارات کے مرکزوںاور محبت وطن لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے ۔ہمارا مستقبل خطرے میں ہے،دشمن ہماری اندورنی لڑائیوں سے خوش ہو رہا ،لیکن ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سردبائے بیٹھے ہیں ۔ حضرت ابو ذرغفاری ؓ نے موت پر چند شعر پڑھے جن کا ترجمہ یوں ہے ۔ : اے زمانہ تیرا برا ہو ،تو کیسا بے وفا دوست ہے ،صبح و شام تیرے ہاتھوں میں کتنے(لوگ) مارے جاتے ہیں،زمانہ کسی سے رعائت نہیںکرتا ،کسی سے عوض قبول نہیں کرتا ،اور سارا معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ،ہر زندہ موت کی راہ پر چلا جا رہا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،مگر ان معصوں کی چیخیں آسمان چیر کر عرش الٰہی کو ہلا رہی ہیں ۔ان شہداء کی روحیں پکار رہی ہیں : ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں ہمیں بھی یادرکھنا چمن میں جب بہار آئے