میں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ بیرون ملک میں ماہرین تعلیم کے درمیان گزارا ہے اور میں نے یہ سیکھا کہ زندگی کا حتمی مقصد اطمینان، خوشی حاصل کرنا ہے۔جیسے کہ جیریمی بینتھم نے بھی افادیت پسندی کی بات کی ہے اور یہ عرض کیا کہ افادیت پسندی اخلاقی نظریہ کہ صحیح طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خاندان برداری کے درمیان رہ کر میں نے یہ محسوس کیا کہ یہاں کوئی بھی اپنی زندگی سے خوش و مطمئن نہیں ہے۔ یہاں جب بھی لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے شکوہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہر فرد اپنے قریبی لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتا ہوا نظر آتا ہے۔اس بات کا اگر ادراک یا تجزیہ کیا جائے کہ پاکستانی معاشرے میں ایسا کیوں ہو رہا ہے اور یہ عمل لوگوں کے معیار کو کیوں گرا رہا ہے تو ذہن میں ایک سوال اجاگر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا مقصد صرف پیسہ کمانا کیوں ہے تاکہ امیر ہو کر وہ خوشحال زندگی گزار سکے، ایک خوشگوار زندگی معاشرہ کہ لوگوں سے کٹ کر گزاری جا سکے۔؟ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسے فطری طور پر معاشرہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے یہ بغیر معاشرے کہ زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن لوگ پھر بھی اپنے قریبی عزیزوں کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے میں خوش نظر کیوں نہیں آتے ہیں؟ میں نے ذاتی طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارا سماجی تفاعل بہت سے عوامل کی وجہ سے عدم توازن کا شکار ہے جیسے کہ کھانے سے لے کر زندگی گزارنے کے طرز عمل تک، لوگوں کی سماجی دلچسپیاں غیر متوازن ہوتی جا رہی ہیں جبکہ ہمیں ایک متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ معاشرہ میں پروان چڑھنے والی مشکلات میں مہنگائی، کرنسی کی بے قدری، عالمی منڈی میں بے قابو ہوتی معیشت، محدود روزگار کے ذرائع، کاروبار اور معاشی پیداوار میں کمی کی وجہ سے افراد سخت بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں لوگوں کو یہ احساس نہیں ہو رہا کہ جدیدیت کے سانچے کو ایسے معاشرہ میں اپنانا جو کہ ایک روایتی معاشرے پر مبنی ہے جس سے زندگی تنازعات میں گھرتی جا رہی ہے ہم اپنے خیالات، رہن سہن یہاں تک کہ اب مذہب کو بھی جدیدیت کے رنگ میں رنگتے نظر آ رہے ہیں۔ہم لوگ جب کسی محفل کا حصہ بن جاتے ہیں تو اپنی مصنوعی دنیا سے تو جڑے ہوتے ہیں، ہمارا ذہن ہمارے خیالات اس ماحول سے منسلک نہیں ہو پاتے، ہم اپنی بسائی ہوئی دنیا میں مگن رہتے ہیں اس لیے حقیقت میں ہم اپنے پاس بیٹھے افراد سے ذہنی یاجذباتی طور پر جڑ نہیں پاتے، ایک بیگانگی درمیان میں حائل رہتی ہے۔ اپنی عمر سے بڑے افراد کے ساتھ ساتھ ہم عمر افراد میں بھی خود کو الگ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان میں شامل ہونا پڑا تو پیسہ خرچ کرنا پڑے گا جو پیسہ نہ تو موجود ہوتا ہے اور نہ ہی استعمال کرنے کا دل کرتا ہے۔ ہماری اخلاقی اقدار گرتی جا رہی ہیں کہ ہم مطلب کے لیے ہی رشتے استوار کر رہے ہیں۔ ویبر نے کہا تھا کہ لوگ پیسہ طاقت اور وقار کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن کوئی بھی شخص سماجی تعلقات کو ٹھیک یا سلجھاتے ہوئے نظر نہیں آئے گا۔ یہ رویہ تعلقات میں انتشار و نفرت پیدا کر رہا ہے جس سے ذہنی سکون خراب ہوتا جا رہا ہے۔دوسری طرف لاقانونیت کا عکس پاکستان کی سڑکوں پر بڑھتا جا رہا ہے جیسے کہ ڈرائیور حضرات ہمیشہ جلدی میں رہتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے یہاں کے لوگ سڑکوں اور اسکو استعمال کرنے کے حقوق و فرائض سے ناواقف ہیں جنہیں صرف دوسروں سے آگے جانے کی جلدی ہوتی ہے، یہی جلدی اور لاپرواہی ٹریفک حادثات کا سبب بنتی ہے۔ یہاں پر ٹریفک کی پاسداری نہ تو عوام کرتی نظر آتی ہیں نہ ہی یہاں کی انتظامیہ کو اس بڑھتے ہوئے مسئلہ کو حل کرنے میں دلچسپی رہی ہے۔ اسی طرح پیسہ کمانے کے لیے ایسے ذرائع تلاش کیے جاتے ہیں جہاں دنوں میں ڈھیر سارا پیسہ مل سکے جہاں کسی بھی فرد کو محنت نہ کرنی پڑے۔ جہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آنے والا پیسہ کن ذرائع سے وصول ہو رہا ہے آیا یہ مثبت ہیں بھی یانہیں۔ انکا یہ عمل رشتوں کو متاثر کرتا ہے جنکی وجہ سے عدم برداشت، بیگانگی اور علیحدگی و عدم اطمینان شامل ہے۔ جیسے کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ ایک عالی شان گاڑی لے کر دوسروں کے آگے دکھاوا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بتاناچاہتے ہیں کہ انکے پاس پیسہ کی ریل پیل ہے وہ جو چاہے خرید سکتے ہیں۔ اپنی دولت سے یہ دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ عمل انکی اپنی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ایسی سر گرمیاں زندگی سے سکون کو آہستہ آہستہ دور کر دیتی ہیں اور انسان پھر سے انہی رشتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے جن سے وہ اپنے عمل اپنے خیالات کی وجہ سے دور ہوا تھا، سماجی رابطے انسان میں موجود خلل کو دور کرنے میں مثبت ثابت ہوتے ہیں۔ خوشی کی کوئی تعریف موجود نہیں ہے یہ آپ اپنی مرضی سے ان چیزوں سے منسلک کرتے ہیں جو آپکو اچھی لگتی ہیں جیسے کہ بعض کے لیے خوشی پیسہ میں موجود ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں خوشی ہمیشہ پیسے سے وابستہ نہیں ہو سکتی، یہ ہمارے رشتوں میں پیوست ہے۔ جیسے کے جب لوگ ضرورت سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں توزیادہ تر کھانا ضائع ہو جاتا ہے جبکہ اگر صحیح مقدار میں کھانا کھایا جائے تو یہ کھانا بہت سے ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کر سکتاہے۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ پر ٹنوں کے حساب سے کھانا ضائع ہوتا ہے جب کوئی ضرورت مندایسے عمل کو دیکھتا ہے تو اسکے دل میں افراد سمیت معاشرے کے لیے نفرت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے جس سے وہ معاشرے کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔زندگی کا انحصار قناعت، اطمینان اور خوشی پر ہے۔ یہ صرف مال و دولت سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک زندگی کے لازمی جزو میں سے ایک ہے۔ سماجی تعلقات میں بہن بھائی، خاندان شامل ہوتا ہے جو فرد کو معاشرے سے جوڑ کر رکھتا ہے جس سے سماجی انضمام کو فروغ ملتا ہے۔سماجی تعلقات کے ذریعے سے نامکمل زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اپنی زندگی میں موجود خلا کو کیسے پر کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو زندگی ایک بہترین ڈگر پر چل سکتی ہے جہاں آپ اندرونی طور پر اپنے آپ سے مطمئن ہوتے نظر آئیں گے۔