معاشی دائرۂ عمل میں کی جانے والی مسابقتی سرگرمیوں نے انسانی سماج کی نہ صرف ضروریات تبدیل کر دی ہیں بلکہ ٹیکنا لوجی کی تیز رفتار ترقی اور بدلتی جہات کے نتیجے میں اقدار زیست بھی مقامی حدود و قیود سے نکل کر اب عالمی تقاضوں کے مطابق تشکیل پارہی ہیں ۔عالمی تمدن کی اس نمو میں معیشت کو کلیدی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے۔زرعی اور صنعتی پیداوار کے لئے نت نئی منڈیوں کی تلاش ،تجارتی کمپنیوں کی فراوانی اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی موجودگی اور زیادہ سے زیادہ منڈیوں پر گرفت کی کوششوں کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی کاروباری ثقافت (BUSINESS CULTURE ) کو فروغ حاصل ہو چکا ہے۔کاروباری ثقافت کے فزوں تر رجحانات اور اثرات کے باعث معیشت اور اس سے جڑے معاملات اب ہر ریاست کی داخلی اور خارجی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ ریاستیں سیاسی اعتبار سے اب وہی مستحکم سمجھی جاتی ہیں جن کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو،تجارتی توازن ان کے حق میں ہو اور ریاست کے شہریوں کے معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی معقول ضمانت ریاست کی کارکردگی کی صورت موجود اور محفوظ ہو ۔ بین الاقوامی سیاست اورتعلقات میں بھی ان کی اہلیت اور اہمیت متاثر کن ہو جاتی ہے۔ اب عالمی سیاست میں ریاست کے مقام کا تعین معیشت کے استحکام کی بنیاد پر ہی طے کیا جانے لگاہے۔ بین الاقوامی مسائل اور معاملات اب معیشت کے تناظر میں ہی حل ہو رہے ہیں ۔ریاست کی داخلی سیاست بھی اب معیشت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی۔معیشت کے محور پر گردش کرتی سیاست کے تقاضوں کے مطابق ریاستی پالیسیوں کی تشکیل اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ریاست کی داخلی قومی سیاست سے بین الاقوامی خارجی سیاست کے اصول اب اسی تناظر میں طے پا رہے ہیں۔ ریاستوں کی بقا اور ان کا مستقل اب معاشی استحکام سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ریاستوں کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف اب نت نئی منڈیوں کی تلاش کا حصول ہو گیا ہے جہاں وہ اپنی ملکی پیداوار کی، خواہ ان کی نو عیت زرعی ہو ،صنعتی ہو یا پھر خدمات کی شکل میں ہوں، کھپت کو ممکن بنا سکیں۔حالیہ دنوں میں چین اور سعودی عربیہ کے مابین تجارتی تعلقات اس کی روشن مثال ہیں ۔معیشت کے جبر نے ریاستوں کی نظریاتی شناخت کو بتدریج کمزور کردیا ہے ۔اب کوئی ریاست نہ تو مکمل اشتراکی رہی ہے اور نہ ہی مکمل سرمایہ داارانہ نظام پر کھڑی ہے اب سیاست میں نہ کوئی دایاں بازو باقی رہا ہے اور نہ ہی کوئی بایاں بازو اہمیت کا حامل رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس آئینے میں دیکھی جانے والی پاکستان کی ریاستی تصویر تشویشناک حد تک دھندلی ہو چکی ہے یا کر دی گئی ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال ،آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط جغرافیائی محل وقوع، دریائوں اور سمندر کی موجودگی ، بائیس کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ریاست جس میں سولہ سال سے تیس سال تک کے جوانوں کی بڑی تعداد موجود ہو ،چھہ لاکھ سے زائد ایٹمی طاقت سے لیس تربیتی افواج موجود ہو ، اس کا عالمی تشخص کمزور ہو ، بڑا المیہ ہے ۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اس کی معیشت کمزور ہے سیاسی غیر یقینی کیفیت کا تسلسل اور حکمرانوں کے غلط معاشی فیصلوں نے آج پاکستان کی ریاستی حیثیت کو گہرے شبہات نے گھیر رکھا ہے۔ حکمرانوں کی بد عنوانیوں ، سیاسی عدم استحکام ، اور دور رس نتائج کی حامل پالیسیوں سے مسلسل اجتناب کے باعث ریاستی پالیسیاں وقتی مفادات کے گرد ہی گھومتی رہیں جس کے اثرات اب پوری طرح ظاہر ہورہے ہیں۔معیشت کی غیر متعین سمت نے یہ دن دکھائے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود آج غذائی جناس تک درآمد کی جا رہی ہیں ۔صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا تو کجا موجود صنعتیں بھی توا نائی کے بحران کے باعث بند ہو رہی ہیں ۔ پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز کراچی شپ یارڈ پاکستان اسٹیل جیسے قومی ادارے جو کبھی ریاست کا افتخار تھے اب نا قابل برداشت بوجھ بن چکے ہیں ۔ برآمدات کچھ عالمی پالیسیوں اور زیادہ تر قیادت کی نااہلیوں کی وجہ سے محدود او ر مشروط ہو نے کی وجہ سے مسلسل کم ہوتی رہیں جب کہ درآمدات میں اضافہ ہی ہوتا رہا اس غیر متواز ن تجارت سے بین الاقوامی ادائیگیوں میں خسارے کا سامنا ہے ۔ ریاست کے بے پناہ وسائل کی موجودگی میں انہیں ترقی دینے اور ان سے بہتر استفادے کے بجائے قومی معیشت قرضوں پر چلائی جانے لگے تو اس سے بڑی نا اہلی اور کیا ہو سکتی ہے۔ پھر یہ کہ قرض کو عادت بنالیا جائے اور قرض کی ادائیگی بھی قرض لے کر کی جا نے لگے تو پھر ریاست کا سنبھلنا مشکل تر ہو جاتا ہے ۔ پاکستان میں حکومتوں نے قرضوں کے استعمال اور اس کی ادائیگی کے ضمن میں انتہائی غیر ذمہ داری اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان میں حکمرانوں کی سیاسی اور قانونی گرفت کی روایت کمزور رہی ہے ۔اسمبلی ہو یا سیاسی جماعت کافورم قیادت سے سوال کرنا یا باز پرس کرنا وفاداری سے انحراف کے مترادف تصور کیا جاتا ہے ۔لہذا حکمرانوں نے قومی ضروریات یا ترجیحات سے قطع نظر اپنی پسند اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر قرضوں سے حاصل شدہ وسائل کو بڑی بے دردی سے استعمال کیا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ چونکہ منصوبے سیاسی مصلحت اور تقاضوں کے مطابق ہی بنائے جاتے ہیں ۔لہذا جب کوئی حکومت تبدیل ہوتی ہے اور جیسا کہ پاکستان کا سیاسی مزاج ہے کہ بمشکل ہی کوئی حکومت اپنی دستوری مدت کی تکمیل کر پاتی ہے تو پہلے سے جاری منصوے بھی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی ختم کر دیئے جاتے ہیں۔خواہ اس پر کتنی ہی پیشرفت کیوں نہ ہو چکی ہو اور اس پر کتنا ہی سرمایہ استعمال ہو گیا ہو ۔قرضوں سے حاصل شدہ سرمائے کا یہ غیر ذمہ دارانہ استعمال نہ صرف ان کے زیاں کا سبب ہو تا ہے بلکہ ریاست پر قرضوں کابوجھ مزیدیدبڑھ جاتا ہے ۔ عالمی سطح پر کئے جانے والے اب تمام ہی معاشی اور سماجی جائزوں میں پاکستان نچلے درجوں پر موجود ہے۔مگرحکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اتنے مشکل اور کٹھن حالات میں بھی سیاستدان ریاست کے مفادات اور اس کی سلامتی کے تقاضوں کو سمجھے بغیر محض اقتدار کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اقوام عالم میں پاکستان کا ریاستی وقار معیشت کی ترقی اور اس کے استحکام سے ہی بحال ہو سکتا ہے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کو ممکن بناتے ہوئے عالمی منڈیوں میں رسائی حاصل کی جائے،غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کیا جائے،ترقیاتی منصوبے سیاسی مصلحتوں کے بجائے قومی ضروریات کے مطابق بنائے جائیں اور جو منصوبے بھی جاری ہوں انہیں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود مکمل کئے جانے کو یقینی بنایا جائے۔تمام ترقیاتی منصوبوں کی جانچ کے لئے ایک اعلی اختیاراتی جائزہ کمیشن مستقل طور پر موجود ہونا چاہیے جو منصوبوں کی پیشرفت اور تکمیل کی مدت پر بھی نظر رکھ سکے اور اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جو قرضے جن مقاصد کے لئے حاصل کئے گئے ہیں وہ ان کی تکمیل پرہی خرچ ہوں۔