بلاول بھٹو(زرداری) کی نوخیزی کو دیکھ کر اگر کوئی کہے کہ وہ سیاست میں نو آموز ہیں تو یہ مفروضہ درست نہیں ہوگا ۔وہ سیاسی ماحول میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ سیاستدان ماں اور باپ کے بیٹے ہیں اور نانا کی بنائی پارٹی کی قیادت ' عرصہ دراز' سے انکے پاس ہے۔ انتخابی سیاست سے بخوبی آشنا ہیں۔ ہاں اگر کوئی اسے معصوم کہہ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ نئی صدی کا انسان ہے، اعلی تعلیم یافتہ ہے، سیاست میں نئی طرح کا حامی ،محاذ آرائی کے خلاف ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ خوبی ہے ، خامی نہیں۔ حال ہی میں جب تبدیلی کے خلاف ہوا چلی جسکے محرک کوئی اور نہیں بلکہ ان کے اپنے والد تھے، تو انہیں وزیر اعظم بنوانے کی بات سامنے آئی۔ تاہم وزیر اعظم کوئی اور بنا اور بلاول وزارتِ خارجہ کے اہم عہدے پر فائز ہوئے۔ تیرہ رکنی اتحاد کی حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے اپنی پارٹی کے لیے عبوری کابینہ میں کوئی عہدہ تک نہ لیا۔حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ اب ان کے ذہن میں شکوک کلبلانے لگے ہیں کہ کہیں ان کی پارٹی کے ساتھ ہاتھ تو نہیں ہونے جارہا۔ عبوری حکومت کے قیام سے ہی انہوں نے بر وقت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کردیا تھا حالانکہ انتخابات نئی مردم شماری کی روشنی میں کی گئی حدبندیوں کی روشنی میں کرانے کے فیصلے میں انکی پارٹی شامل تھی۔ یہ تیرہ رکنی اتحادی حکومت ہی تھی جس کے دور میں مہنگائی ہوئی، عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھا اور اپوزیشن کو نشان عبرت بنایا گیا۔ تاہم نواز شریف کی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ واپسی سے پیپلز پارٹی کے چئیرمین کو انجان سے اندیشے لاحق ہونے لگے ہیں کہ کہیں تحریک انصاف کی منظر عام سے پوشیدگی کا سارا فائدہ نواز شریف کو ہی نہ دے دیا جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی انتخابی عمل میں شمولیت کے بغیر اگلے انتخابات کے نتائج انکی پارٹی قبول نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف کو اس بیان سے یقیناً خوشگوار حیرت ہوئی اور اس نے پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔کل کا پتہ نہیں لیکن اگر بلاول کی موجودہ سوچ کو دیکھا جائے تو ان کی پارٹی کا بہر حال مقابلہ ن لیگ کے ساتھ ہی پڑے گا۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کو پنجاب میں ہی محدود کرنے کی کوشش کرے گی جہاں شہری حلقوں میں تحریک انصاف اور دیہی حلقوں میں استحکام پارٹی موجود ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر پنجاب سے کوئی بڑی پارٹی سامنے نہیں آتی تو پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی۔ اگر مقامی حکومتوں پر ان کی سوچ واضح رہی تو قوم پرست پارٹیوں ، بشمول ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر تختِ اسلام آباد پر براجمان ہونا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ سندھ میں بہرحال اسے اپنی پوزیشن قائم رکھنا ہوگی۔کچھ سیٹیں اگر جنوبی پنجاب سے بھی ہاتھ آجاویں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔کچھ مستشنیات البتہ ضرور ہیں۔ ایک تو وہ نظریاتی عنصر ہے جو دائیں بازو کی تحریک سے متاثر ہے اور اگر اسکی بات مان لی جائے تو معیشت کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی پوزیشن (جیسا کہ نجکاری کی مخالفت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی نظروں میں اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ دوسرا، آصف علی زرداری کی 'صلح کل" کی پالیسی جو پیپلز پارٹی کے ترقی پسندانہ وژنکو دھندلا دیتی ہے۔دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل جل کر چلنا اچھی بات ہے لیکن بنیادی اصولوں پرسمجھوتہ کیے بغیر۔پیپلز پارٹی پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈیم ایم) کی پیٹھ نہ ٹھونکتی تو انتخابات بھی وقت پر ہوتے اور پیپلز پارٹی کی سندھ اور وفاق میں پوزیشن مزید مضبوط ہوتی۔ اب اگرخورشید شاہ جیسے سینئر رہنما کو یہ کہنا پڑے کہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننا پیپلز پارٹی کی فاش غلطی تھی اور یہ کہ رات گئی بات گئی ۔اب انتخابات وقت پر ہوجانے چاہئیں تو سیاست میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ سال کا اقتدار مفاد پرست ٹولے کو تو فائدہ دے گیا تاہم پارٹی کی ساکھ خراب ہوئی۔ یوں، بدلتے سیاسی منظر میں کوئی پالیسی بنانا اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرنا اس وقت صرف بلاول پر منحصر نہیں ۔گو کہ یہ اہم ہے کہ سیاسی پارٹی کی شخصیت اسکی پائدار پالیسی سے ہی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ کارکنوں کی تربیت ہوتی ہے اور انکی وابستگی وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹی سے اْنسیت بڑھتی ہے۔پیپلز پارٹی دو ہزار چھ میں ہوئے میثاق جمہوریت تک ن لیگ کی حریف تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو، جنہوں نے اس معاہد ے پر نواز شریف کے ساتھ لندن میں دستخط کیے تھے اپنی پارٹی کی سیاست کا نیا رخ متعین کرنے کے لیے زندہ نہ رہیں۔ اگلی کہانی آصف علی زرداری نے لکھی ہے۔ انہوں نے نظریات کی بجائے 'سیاسی بھائی چارہ' کے تصور پر عمل کیا تو انکی پارٹی نے بھی ن لیگ کے رنگ ڈھنگ اپنا لیے۔ وہ جنوبی پنجاب کا رخ کم کرتے ہیں جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔ انہیں لیکن امید ہوچلی تھی کہ مرکزی پنجاب سے کبھی انکی پارٹی کو ستر کی دہائی کی طرح پذیرائی ملے گی لیکن ہر بار انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ آصف علی زرداری نے سیاست میں عاجزی کے تصور کو فروغ دیا۔ وہ سیاسی بھائی چارہ کے ماحول کو فروغ دینے میں کامیاب تو رہے لیکن ہر بار ملائی شیر کے حصے میں ہی آئی۔ سیاست کا تازہ ترین مرحلہ اسکا گواہ ہے۔ انہوں نے سیاسی ماحول کو گرم کرنے کے لیے تین صوبوں میں اپنی پارٹی کو قربان کیا لیکن اب واضح ہوگیا ہے کہ اسکا فائدہ بھی ن لیگ کو ہوا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی وفاق میں سیاست کے لیے 'غنیم' کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔بلاول کا اثاثہ تاہم معصومیت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حالات و واقعات پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو مدِ مقابل بنا ڈالیں تو انکی معصومیت ہی انکی سب سے بڑی ڈھال بن کر سامنے آئیگی۔ یہ وہ اثاثہ ہے جونوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ یہ اثاثہ ن لیگ کیا کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔ اگر وہ صوبائیت پرستی سے پرہیز کریں اور آئین کی روح کے مطابق مقامی حکومتوں کی حمایت کریں توپاکستان پیپلز پارٹی قومی سطح کی پارٹی کے طور پر دوبارہ ابھر سکتی ہے۔ لوہا گرم ہے، جیسے ڈھالنا چاہیں ڈھال لیں!