فرخ سہیل گوئندی پاکستان کا ایک ایسا حوالہ ہے، جو بیک وقت پاکستان، ترکی، لبنان، ایران اور دیگر ممالک میں برابری کی حد تک مقبول ہیں۔ یہ پاکستان کے ایسے جہاں گرد ہیں جنہوں نے دنیا کا کونہ کونہ دیکھ رکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کی سیر کی ہے۔وہ زبردست مصنف ہیں۔ ایسا مصنف جو حساس موضوعات کودلائل سے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔ اپنی کتاب ’بکھرتا سماج‘ میں انہوں نے کئی تاریخی مغالطوں کی تاریخی حوالوں سے تصحیح کی ہے۔ مثلاََ ہم برصغیر کے مسلمان ’سلطنت عثمانیہ‘ کے عروج کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اتراتے ہیں، حالانکہ تاریخی طور پرجب سلطنت ِ عثمانیہ کا سورج غروب ہونے لگا تو برصغیر تاج ِ برطانیہ کے زیر نگیں تھا،اْن برطانوی سپاہ میں برصغیر کے فوجیوں کی بھی کثیر تعداد موجود تھی جنہوں نے عثمانی افواج سے لڑائی کی۔ بر صغیر کے مسلمانوں کے دل ترک عوام جبکہ تلواریں سلطنت ِ عثمانیہ کے خلاف تھیں۔گوئندی صاحب کے دو عشق مشہور ہیں۔ سیاست اور سیاحت۔ اْن کے یہ دونوں عشق کل وقتی ہیں۔ اْنہوں نے کسی عشق کو ادھورا نہیں چھوڑا۔ وہ زبردست سفر نامہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے سفر ناموں میں ایران، ترکی، روس، اور یورپ کے نہ صرف آپس کے اشتراکات بتائے بلکہ تنازعات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ پچھلے دنوں سنٹر فار میڈیا، سوسائٹی اینڈ ڈیموکریسی (CMSD) اور ڈائریکٹوریٹ آف سٹوڈنٹس افیئرز اسلامیہ یونیورسٹی آ ف بہاولپور کے زیر انتظام خواجہ غلام فرید آڈیٹوریم میں فرخ سہیل گوئندی کی شہرہ ِ آفاق کتاب ’میں ہوں جہاں گرد‘ کی تقریب ِ رونمائی تھی۔ یہ تقریب علم دوست، تاریخ و ثقافت سے محبت کرنے والے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے سجائی تھی۔ تقریب میں مظفر گڑھ سے معروف ادبی شخصیت ندیم رحمن ملک،معروف ناول و کالم نگار رانا محبوب اختر،ایمرسن کالج ملتان سے پروفیسر نعیم اشرف، لاہور سے معروف ادیب رضی حیدر، بہاولپور کی جہاں دیدہ شخصیت، معروف پارلیمنٹرین، صحافی،ادیب اور شاعروں نے بھی شرکت کی ۔ مقررین نے بلاشبہ حرف بہ حرف درست کہا کہ فرخ سْہیل گوئندی ایک ایسا جہان ہے جس میں سیاحت، سیاست، تاریخ، تقابل ِ ادیان، فلسفہ، شعر و ادب سموئے ہوئے ہیں۔ ’میں ہوں جہاں گرد‘ پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرخ سہیل گوئندی ’جہاں گرد‘ نہیں بلکہ خود ایک جہان ہیں۔ ایک ایسا جہان جس میں تہذیبوں کی نمو، تہذیبوں کی تاریخ، تہذیبوں کا تصادم اور تہذیبوں کی ثقافت اور کلچر کا ایسا حسین امتزاج ہے جو ہر پل انسان کو کچھ نیا علم عطا کرتا ہے۔’میں ہوں جہاں گرد‘ میں بیان کئے گئے واقعات تو بہرحال اپنی منفرد اہمیت رکھتے ہیں مگرکتاب کا انداز ِ بیاں خود تاریخ ہے۔ ایک ایک جملہ تاریخ بیان کرتا ہے۔ جملوں کی کاٹ اس قدر خوبصورت ہے کہ قاری حیران رہ جاتا ہے۔ مثلاََ ’’بھاڑ میں جائے بلغاریہ جی، مجھے تو جرمنی جانا ہے۔ ایران، ترکی اور بلغاریہ تو راستے میں پڑتے ہیں۔ دکان اچھی نہیں چل رہی۔ اب یورپ جاکر ہی اپنا مستقبل بناسکتا ہوں‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں۔ ’انہی سنگلاخ پہاڑوں کے راستے سکندر اعظم نے اپنی آدھی فوج کو واپس یونان جانے کا حکم دیا تھا۔ وہ سکندر اعظم جسے پنجاب کے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوادیئے۔ کہتے ہیں کہ سکندرِ اعظم خود تو بحری راستے یونان روانہ ہوا اور اپنی آدھی فوج کو ان مشکل راہوں پر ڈال گیاجو بھوک پیاس سے انہی پتھریلی زمینوں میں غرق ہوگئی‘۔ حیران کن طور پر ان چند جملوں میں گوئندی صاحب نے ہمیں پڑھائی گئی جھوٹی تاریخ کا پردہ چاک کردیا ہے۔ ہم جس راجہ پورس کو شکست خوردہ پڑھتے آئے ہیں گوئندی صاحب نے چند جملوں میں بتایا کہ راجہ پورس ہی اصل فاتح تھا جس نے مقدونیہ کے بدمست اور خونخوار بھیڑیے کو ناکوں چنے چبوادئے۔ سفر ِ ایران کے متعلق لکھتے ہیں کہ چار سال قبل تہران یونیورسٹی نے دنیا میں دھوم مچا رکھی تھی۔ کیا پرنٹ میڈیا اور کیا ریڈیو ٹیلی ویژن۔ ہر روز خبریں آتی تھیں کہ تہران یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات، ایرانی شہنشاہیت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ ایران کے شہر شہر ایسے مظاہروں اور جلوسوں سے ہر روز پوری دنیا کی خبروں کا حصہ بنتے ہیں۔ عوام ٹینکوں کے آگے کھڑے مقابلہ کرتے۔ ان میں خواتین بھی پیش پیش ہوتیں۔ نوجوان اور طلبہ ان مظاہروں کی قیادت کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ مظاہرے تحریک میں بدلے اور پھر انقلاب میں ڈھل گئے‘‘۔ ’میں ہوں جہاں گرد‘ کا یہ پیرا گراف کئی قوموں کے جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ انقلاب ِ فرانس اور انقلاب ِ روس کے واقعات کی مماثلت ایرانی انقلاب میں ہمیں نظر آتی ہے۔ انقرہ کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’انقرہ کا قدیم نام انقائرہ Ancyraہے۔ بعد میں یہ انقرہ کہلانے لگا۔ مغربی دنیا میں یہ انگورہ کے نام سے مشہور ہوا۔ انگورہ بھیڑ، انگورہ بلی اور انگورہ خرگوش۔ انقرہ کے جدید شہر کے ارد گرد اور اس کی موجودہ گلیوں کے اندر حتی تہذیب کی بستی کے آثار بھی ملے ہیں ،جو پچیس سو قبل مسیح سے پرانی بستی ہے۔ مختلف تہذیبیں یہاں برپا ہوئیں اور وقت کے ساتھ غرق ہوگئیں۔ اس بستی کا عروج و زوال بھی مختلف زمانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور آج کا یہ شہر شوری، سمیری، اکادمی (Akkadian)، یونانی، قدیم یونانی Phrygian، لیڈین، فارسی، رومی، بازنطینی، عرب، سلجوق، عثمانی سمیت دیگر لاتعداد تہذیبوں کا حصہ بنا۔ عرب مسلمانوں نے اسے پہلی مرتبہ امیر معاویہ ؓکے زمانے میں 654ء میں فتح کیا۔ اسی دور میں یہاں اناطولیہ کی پہلی عرب چھاؤنی قائم کی گئی۔785صفحات پر مشتمل یہ کتاب ’میں ہوں جہاں گرد‘ صرف ایک قوم نہیں بلکہ سینکڑوں قوموں اور درجنوں تہذیبوں کی تاریخ ہے جو سہل انداز میں بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب کے تفصیلی مطالعہ کے بعد فرخ سہیل گوئندی کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔بلاشبہ فرخ سہیل گوئندی جیسی شخصیات محض ایک انسان کے وجود میں نہیں سماسکتیں بلکہ وہ ایک ایسے ادارے کی مانند ہوتے ہیں جن کے وجود سے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان فیض یاب ہوتے ہیں۔