اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیراہتمام باچا خان کانفرنس میں مقررین نے وہ باتیں کہیں جن کی توقع اہل پاکستان عشروں سے پارلیمنٹ میں ان کے خطابات میں کرتے رہے ہیں۔ باچاخان کی شخصیت اور افکار کی تحسین کے بعد یوسف رضا گیلانی‘ اسحاق ڈار‘ غلام حیدر احمد بلور‘ ایمل ولی خان‘ میاں افتخار حسین ، مولانا فضل الرحمان اور امیر حیدر ہوتی سمیت میڈیا اور سیاست سے وابستہ دیگر اہم شخصیات نے خطاب کیا۔ باچا خان کانفرنس میں ان نمایاں شخصیات کی موجودگی میں یہ قراردادیں منظور کی گئیں کہ پختون تحفظ موومنٹ کے گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو رہا کیا جائے۔ دوسری قرارداد میں نیشنل فنانس ایوارڈ منظور کرنے کا مطالبہ کیا گیا‘ تیسری قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ملکی خارجہ پالیسی خود مختار بنائی جائے‘ ایک قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاک افغان تجارت کے لیے راستے کھولے جائیں۔ مقررین نے ملک کو بچانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے اور غلطیاں دہرانے سے گریز کا مشورہ دیا۔ وطن عزیز میں جمہوریت کار فرما ہے۔ جمہوری ادارے موجود ہیں اور ان کے رکن منتخب ہونے والے لوگ سرکار سے وہ تمام سفری‘ رہائشی و ذاتی مرعات وصول کر رہے ہیں جو قانون کے مطابق انہیں دی جا سکتی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ اراکین پارلیمنٹ اور سیاست دان ایوان میں اپنی موجودگی کا حق ادا نہیں کر رہے۔ عوامی نمائندہ بھلے کسی میونسپل کمیٹی کا ہو‘ صوبائی اور قومی اسمبلی کا یا سینٹ کا رکن ہو اس کی پہلی اور آخری ترجیح آئین کا تحفظ‘ جمہوری بالادستی اور اپنے حلقے کے ووٹروں سے وفاداری ہے۔ جن معزز شخصیات نے باچا خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریاست اور آئین کے حق میں گفتگو فرمائی ان کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت لانے اور جمہوری رویوں کا پابند رہنے پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے۔ ہاں اے این پی نے تشدد پسند قوتوں کے مقابل ایک کردار ادا کیا جس کے دوران اس کے لوگوں کو بڑے نقصان اٹھانا پڑے لیکن کیا یہ تمام لوگ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لیے کچھ کیا؟ اکتوبر 2022 کی بات ہے ۔جمعیت علماء اسلام نے مفتی محمود کانفرنس کرائی۔ ماشاء اللہ ویسی ہی رونق‘ شاندار انتظامات اور نامور شخصیات کی کہکشاں تھی جیسی باچا کانفرنس کے دوران نظر آئی۔ اس کانفرنس سے وزیراعظم شہبازشریف نے خطاب کیا۔ میڈیاکی جو شخصیات پی ڈی ایم کے قریب نظر آتی ہیں وہ ان دونوں کانفرنسوں میں خطاب کرتی نظر آئیں۔ ممکن ہے اگلی کانفرنس پیپلزپارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد میں رکھ لے یا پھر مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کی جمہوری خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام کرلے۔ ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی ہر کانفرنس میں میزبان جماعت کے سیاسی کلچر کا تڑکا لگا کر کم و بیش ایک جیسی باتیں کی جاتی ہیں‘ ان سب باتوں کو سن کر محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں سے بڑھ کر اصول پرست اور قانون پسند کوئی نہیں۔پھر سوچتا ہوں ہنستا بستا ملک کس نے اجاڑا؟ باچا خان کانفرنس میں مقررین کی خوشنما باتیں الجھا رہی ہیں۔ علی وزیر مدت سے جیل میں ہیں۔ بلاو ل بھٹو کچھ عرصہ پہلے ایک تقریب میں تھے‘ ان کے ساتھ وفاقی وزیر قانون تشریف فرما تھے جب علی وزیر کی رہائی کا نعرہ لگاتے ایک گروپ سامنے کھڑا ہوگیا۔ پی ٹی آئی دور میں بلاول بھٹو علی وزیر کی گرفتاری پر عمران خان کو بے نقط سناتے تھے۔ علی وزیر سے ملاقات بھی کی۔ وہی بلاول بھٹو نعرے لگانے والوں کو مشورے دے رہے تھے کہ علی وزیر کی رہائی کے لیے ان سے رابطہ کریں جنہوں نے پکڑ رکھا ہے۔ اب اللہ جانے حکومت کے سوا کون ہے جو بندے پکڑ سکتا ہے اور اتنے جمہوریت پسند رہنمائوں کی موجودگی میں علی وزیر کو رہا کیوں نہیں کر رہا۔ خطاب کرنے والے تمام افراد خود حکومت ہیں‘ یہ اگر فواد چوہدری کی گرفتاری اور لوگوں کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرنے کا کام کرسکتے ہیں تو علی وزیر کی رہائی کے لیے ادھر ادھر کی ہانک کر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ ایک اور مطالبہ قابل غور ہے۔ خارجہ پالیسی کو خودمختار بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ سیدھی بات ہے‘ اب کسی کوشک نہیں رہا کہ رجیم چینج کے لیے جمہوری چہروں نے کیسا غیر جمہوری کردار ادا کیا۔ خارجہ پالیسی آزاد اور خودمختار ہورہی تھی کہ اسے دوبارہ غلامی میں دے دیا گیا۔ اب روز کسی ملک جاتے ہیں‘ ان کی فرمائشیں نوٹ کرتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔ عالمی برادری نے پاکستان کی عزت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ باچا خان کانفرنس نے باقی جو مطالبے کئے ان کا حال بھی یہی ہے۔ جو بات نہیں کی گئی وہ اے این پی کی میزبانی کا لطف اٹھانے والے بھول گئے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر کے پاکستان کی معیشت کی جڑوں میں جو بارود بھرا گیا اس پر کسی کوشرمندگی ہے یا وہ بھی کوئی عظیم الشان کارنامہ قرار پائے گا؟ ہم کون ہوتے ہیں مفتی محمود ،باچا خان کانفرنس پر اعتراض کرنے والے لیکن ہمیں اس بات پر اعتراض کرنے کا پورا حق ہے کہ دونوں کانفرنسوں میںقائداعظم محمد علی جناح کی خدمات کو ایک جملے کا خراج بھی نہ مل سکا۔مفتی محمود ، شیخ الہند اور باچا خان کی خدمات بہت ہوں گی لیکن قائداعظم محمد علی جناح کے بستر علالت پر پڑی ایک شکن کے برابر بھی نہیں۔ ملک کو بحرانوں نے گھیر رکھا ہے‘ سب اپنے اپنے نظریاتی اجداد کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے کانفرنس کروا رہے ہیں۔ جن بے بس‘ مفلوک الحال اور طاقتور طبقات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے پاکستان بنا تھا وہ صبح آٹا خریدنے نکلتے ہیں‘ شام تک باری آتی ہے‘ کئی بار یہیں کھڑے انہیں موت آ جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭