گریہ شب کو جو سیلاب بنا دیتی ہے وہی صورت مجھے بے آب بنا دیتی ہے میری سوچوں کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے اسی تسلسل میں دیکھیے کہ تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال۔جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے اور آخری بات یہ کہ بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا ۔یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے۔اس مرتبہ تو عید میلادالنبیؐ کے موقع پر ملک محمد صاحب نے کمال ہی کر دیا کہ نہ صرف محفل کے لئے سامان کا اہتمام کیا بلکہ اس کو حسن جمال کے تحت آراستہ کیا۔ سب سے بڑھ کر آقائے نامدار محمد ﷺ کے حوالے سے ڈاکٹر محمد امین کو مدعو کیا جو کہ ملک کے معروف محقق و ماہر تعلیم ہیں اور اس حوالے سے ماہنامہ البرھان نکالتے ہیں۔ انہیں ہماری تعلیم کی فکر ہے کہ یہی قوم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد امین نے خوب کہا کہ یہ محبت عجیب جذبہ ہے کہ سب کچھ بدل کے رکھ دیتا ہے۔وہی جو میں نے آغاز میں کہا کہ یہ جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے محبت کو اساس بنا کر بات کی کہ جب عالم شباب میں کسی کو محبت ہوتی ہے تو وہ عجیب تجربہ سے گزرتا ہے اور یہ فطری عمل ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسی رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے محبوب کو لباس کیسا پسند ہے۔اسے کون سا رنگ بھاتا ہے اور وہ اسے کس طرح کا دیکھنا چاہتا ہے ۔کیسے اطوار ہوں۔ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ بال کیسے بنائے کہ اچھے لگیں غرضیکہ محبت کرنے والے کی ساری توجہ اپنے محبوب پر ہوتی ہے اور محبوب اسے تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے ۔ساری دنیا حیران ہوتی رہتی ہے کہ اسے ہو کیا گیا ہے۔وہی جو امجد اسلام امجد نے کہا تھا: تو جس رنگ کے کپڑے پہنے وہ موسم کا رنگ۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے روئے سخن بدلا اور ہمارے دعوے پر آ گئے کہ ہم میں سے اکثر و بیشتر یہی دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہمیں آقا محمد ﷺ سے بے پناہ محبت ہے ۔اگر محبت ہے تو وہ ہم میں تبدیلی کیوں نہیں لاتی ہمارے اعمال پر اثر انداز کیوں نہیں ہوتی؟ اس کے بعد قرآن کا تذکرہ شروع ہوا۔ اللہ سبحان و تعالیٰ کے اس ارشاد کی بات ہوئی جسے غور سے پڑھیں تو دل و جان پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے پیارے محبوب انہیں بتا دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ پھر اللہ بھی تم سے محبت کرے گا(مفہوم)۔ اللہ جانتا ہے کہ میں اس آیت کے نشے میں رہتا ہوں کہ اور کیا چاہیے کہ اللہ اپنے بندے سے محبت کرنے لگے۔مگر یہ محبت اور مؤدت براستہ اتباع رسولؐ ہے۔مرکزی بات یہ کہ محبت کیسے کرنی ہے۔ہائے ہائے ایک صحابی آئے تو حضورؐ تقریر فرما رہے تھے۔ حضور ﷺ نے کہا بیٹھ جائو وہ صحابی غالباً عبداللہ نام تھا، راستے ہی میں بیٹھ گئے۔آپؐ نے کہا راستے میں نہیں۔یعنی کان میں آواز پڑتے ہی ایسے عمل ہوتا تھا جیسے خود کار حکم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔بے شمار واقعات ہیں۔ بس اسی آئینہ میں ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارا رہن سہن معاشرت ‘سیاست‘ تعلیم اور دوسرے معاملات اس سے کچھ میل کھاتے ہیں۔یوں تو ہم چراغاں بھی کر لیتے ہیں ،پروگرام بھی کر لیتے ہیں ،جلوس بھی نکال لیتے ہیں یہ اپنی جگہ محبت کا ایک اظہار ہے اور یہ مظاہر ہیں۔مگر مسئلہ تو زندگیوں کا ہے کہ ہمارا نظام قدم قدم پر اس چیز کا رستہ نہیں روکتا جو ہمارے لئے سانس کی طرح بن چکی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ نہیں ہم اگر غلام جو چل رہا ہے آج بھی یہ کس کا ہے نظام ہم تو زبان اردو بھی نافذ نہ کر سکے منہ میں ہمارے ڈال دی انگریز نے لگام یہ تلخ حقیقت ہے کہ اردو کا تعلق ہم مسلمانوں سے ہے۔پھر آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ نظام تعلیم میں دوسرے نظام الحادی فکر کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب ہم پر غالب ہیں کہ ہم تو قرآن کو بھی چھوڑ چکے کہ جو مسلمانوں کا اصل نصاب ہے۔بات بڑھتے بڑھتے ٹرانس جینڈر تک پہنچ چکی سب خوابیدہ ہیں، بل تک منظور ہو گیا ۔سانحہ ہے سانحہ۔ اصل میں ہم نے ان کو سپیس دی۔ڈاکٹر محمد امین نے کہا کہ اگر ہم حضور اکرمؐ سے محبت کرتے تو ہم کچھ اور ہوتے، اصل میں ہمارا دعویٰ باطل ہے بلکہ اس کے الٹ ہم کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنے دشمنوں سے مغلوب ہیں۔انہیں اپنے دوست سمجھتے ہیں اس سے ہماری بے چارگی دیکھنے والی ہے۔ کالم میں تفصیل ممکن نہیں ہوتی مجھے مولانا حمید حسین کا تذکرہ بھی کرنا ہے کہ وہ تو ہمارے درس کے روح رواں ہیں کہ ڈاکٹر ناصر قریشی اور میاں نعیم جیسے پرخلوص لوگوں سے قرآن فہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا حمید حسین صاحب نے اگر چہ زیادہ ہی اختصار سے بات کی مگر لوگوں کے اصرار پر کچھ باتیں گوش گزار کیں۔انہوں نے بھی مسلم امہ کے اتحاد پر زور دیا اور خاص طور پر ہم جو فرقوں میں بٹے ہوتے ہیں ۔انہوں نے نہایت خوبصورت بات کی، ہم حضور پرنورؐ کی بات کرتے ہیں تو نور کے مفہوم پر غور نہیں کرتے ہیں کہ آپ نور مجسم ہیں ۔آپؐ کی تعلیمات یہی ہیں۔ دیکھیے کہ دو ہی صورتیں علم اور عمل ‘ علم وحی ہے جس کی صورت قرآن ہے اور آپؐ کی سیرت اور سنت اس قرآن کی عملی شکل ہے اس سے باہر کچھ نہیں۔آپ سراپا ہدایت ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہم نے روزی روٹی کے لئے اپنی اصل پہچان کھو دی ہے۔پورا قرآن پاک پڑھ جائیے خالق و مالک کہتا ہے کہ آقاؐ کے امتی مسلمان ہیں اور ان کا دین اسلام ہے۔ہم نے اپنی شناخت اور پہچان اتنی الگ کر لی ہے کہ شکلیں بھی ملنا شروع ہو گئی ہیں۔معاف کیجیے ہم نے باقاعدہ زہریلے باغ اپنے اردگرد اگا لیے ہیں جس میں دوسرے کا گزر نہیں ہو سکتا، اس کی سانس رک جائے گی۔ اپنی اپنی انا کو دفن کرنا ہو گا کہ ہم اللہ اور رسولؐ کے نام پر ایک نہیں ہو سکتے؟اس میلاد کی محفل کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم سب اکٹھے مل بیٹھیں اور آقاؐ کی سیرت بیان کریں اس میں آصف صاحب نے حفیظ تائب کی نعت بھی سنائی ایک بچے قاسم عباس جلوی نے اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی کا کلام سنایا۔ڈاکٹر ناصر قریشی نے نہایت عمدہ نظامت کی ۔ندیم خاں عبدالغفور اور ملک محمد سعید نے نہایت تن دہی سے اتنا بڑا اہتمام کیا ۔مرغزار کالونی کے ہر دلعزیز صدر چودھری محمد شہزاد چیمہ بھی شریک محفل رہے۔بہرحال یہ ایک یادگار محفل تھی جو آقاؐ کے تذکرے سے مہکتی رہی۔منیر نیازی صاحب کا ایک شعر: میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے