مسئلہ اور بڑھا اپنا تو تدبیروں سے وہ تو کچھ اور بھی بدظن ہوا تحریروں سے دیکھتے دیکھتے آنکھوں کی سماعت جاگی اور آواز سی اڑنے لگی تصویروں سے ہم تو ایک کیفیت میں ہیں۔اس حصار سے نکل کر دیکھتے ہیں تو کچھ نظر نہیں آتا۔دل بغاوت پہ ہی آمادہ تو پھر خیر نہیں اس کو باندھا نہیں جاتا کبھی زنجیروں سے۔اس زمانے میں بھلا کون کسی کو ڈھونڈے۔رابطہ ٹوٹ گیا راہوں کا رہگیروں سے۔مسئلہ تو اس سے بھی آگے کا ہے کہ راہبر ہی راہزن ٹھہرے۔ وہ ہمیں صرف خواب دکھاتے ہیں اور پھر ان میں رنگ بھرتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہ آیا کچھ بھی خواب سے پہلے ہی ڈر لگتا ہے تعبیروں سے۔ جنہیں نیب نے آلودہ کیا وہ نیب ہی سے نہا دھو کر نکل آئے۔سوجھتا کچھ بھی نہیں کہ بقول نوید مرزا کون سچا ہے کون جھوٹا ہے ایک لہجے میں بولتے ہیں سبھی۔ اب میں ذرا زمینی حقائق کی طرف آتا ہوں آپ اسے بے شک ریشم میں ٹاٹ کا پیوند سمجھیں مگر کیا کریں خاک زاروں کی بات کرنی ہے۔ تجربے کے بغیر ہرگز نہیں میں مولی خرید کر لایا تو وہ 80روپے کلو اور گاجر 150روپے کلو مٹر ساٹھ کلو منڈی میں۔آپ خود ہی بتائیے کہ یہ گاجر مولی کس کھاتے میں آتی تھیں شملے کی مرچ 400روپے کلو ایک دم بے برکتی کھیرے کا مذاق اڑایا جاتا تھا وہ بھی ڈیڑھ سو روپے تک کلو ہے۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں یہ بدمعاش کر کیا رہے ہیں یہ کھیل کیا کھیل رہے ہیں بڑی اچھی بات ہمارے استاد حمید حسین صاحب نے کی کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک اور خوف ہے اور اللہ پاک نے سب سے پہلے اسی کا اہتمام کیا کہ اس نے بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن بخشا اور کمال کی بات اللہ پاک نے یہ کی کہ جو انسان سے یہ حق چھیتا ہے یعنی بھوک پیدا کرتا ہے ۔اب آپ دیکھ لیجئے کہ ہمارے حکمران کیا کرتے ہیں پہلے تو یہ بھی طے نہیں کہ اصل میں حکمران کون ہے۔ نظام کس کے ہاتھ میں معیشت کون چلا رہا ہے اور تو اور سٹیٹ بنک کس کے قبضہ میں ہے برین واشنگ کون کرتا ہے اصل میں ٹارگٹ کون ہے رہنما تو بڑے سکون میں ہیں اور بے سکونی عوام کی قسمت ہے ۔رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ ،قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ۔ ایک لمحے کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا سچ مچ حکمران ہی کچھ نہیں کر رہے پیٹرول کہاں پہنچا دیا یہ تو ایک علامت ہے بجلی کے بل جان لیوا ہیں۔ یہ جدید دور ہے جہں میزائل‘ بم یا کوئی اور بارود پھینکنا نہیں پڑتا کہ لوگ ڈر جائیں اور سہم جائیں اب تو یوٹیلیٹی بلز ہی یہ کام سرانجام دیتے ہیں وہی جو بشیر بدر نے کہا تھا نہ جانے کسی گلی میں شام ہو جائے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ بجلی بل کے نام پر مہینہ بعد ان پر کیا آفت گرے گی۔ مسلسل ایک خوف بجلی کے پیسے تو ایک طرف اس میں کئی قسم کے چارجز دوسرے لفظوں میں جگا ٹیکس اور تو اور شرمناک ٹیکس پی ٹی وی کے حوالے سے۔ کوئی پی ٹی وی دیکھتا ہے؟ دیکھنے والوں کو تو الٹا انعام ملنا چاہیے۔ تفنن ایک طرف آپ دیکھتے نہیں کہ بے تحاشہ مہنگائی اوربے روزگاری کے باعث لوگوں میں بھوک محو رقص ہے۔ دال روٹی بھی ممکن نہیں رہی دربار پر تو سب نہیں جا سکتے اللہ بھوک میں روٹی دیتا ہے تو سبب کون بنتا ہے۔پھر آئے دن کے بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بل لوگوں میں بے یقینی اور خوف۔ اس کو دور کرنا حکمرانوں کا کام ہے بلکہ ذمہ داری ہے مگر وہ تو یہ صورت حال پیدا کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اپنی پڑی رہے وہ سوچنے سمجھنے سے بھی محروم ہو جائیں۔اللہ نے تو پہلے بھوک کا تدارک کیا پھر خوف کا تب کہا کہ آئو نماز کی طرف اور دوسرے احکامات کی طرف کمال بات کہی حمید حسین صاحب نے کہا کہ ہم تو اپنے دشمنوں کی خوش دلی کے لئے دن رات مصروف ہیں اور کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے کاش ہم اتنی کوشش تو کیا آدھی کوشش بھی اللہ کو خوش کرنے کے لئے کرتے تو ہمارے دن رات بدل جاتے رحمتیں نازل ہوتیں: غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا ہم نے کبھی اس کو پکارا ہی نہیں کہ ہم اس کو بھول گئے اور پھر اس نے ہمیں ہمارا اپنا آپ بھلا دیا۔ اسی حوالے سے امجد اسلام امجد یاد آتے ہیں اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔مگر یہ لوگ لوٹ کر بھی جاتے ہیں تو لندن۔حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنی مٹی سے جڑے تک نہیں ہیں وطن پرستی کی بات نہیں کر رہا نظریاتی ریاست کی بات کر رہا ہوں آپ یہاں بھی سود کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کے خلاف بے دھڑک اپیل لے کر سپریم کورٹ پہنچ رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر والا قانون پاس ہوا ۔ مقصد تو مگر ایک ہی ہے امریکہ کو خوش کرنا ہے۔ بے راہ روی اور آزاد معاشرہ تشکیل دینا کہ اسلام کی حدود پر زد پڑے۔ کسی کا بیان پڑھ رہا تھا کہ پاکستان نازک موڑ پر منزل کس کو ملے گی کہنا مشکل حیرت ہے اس بیان پر کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ویسے منزل ہے کیا اگر منزل کسی ہی کسی کے بوٹ ہیں یا گھٹنے تو یہ اس کو ملے گی۔ جس کے جسم میں زیادہ لچک ہے اور وہ فوراً بتا سکتا ہے کہ سامنے والے شخص کے گھٹنے کہاں ہے یا پھر بوٹ پالش کی اصطلاح موجود ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ بوٹ پالش کرنے والے کی مرضی شامل نہیں ہوتی یہ بوٹ والے کی مرضی ہے کہ کس کے سامنے پائوں کرے۔ایسے ہی جیسے پنڈ کا چودھری بس کھسے والا پائوں آگے کرتا ہے کمی کمین بھاگ کر پائوں پڑتے ہیں پھر ٹانگیں دبانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ شخص خوش قسمت ہوتا ہے جس کے آگے چوہدری اپنی ٹانگ کر دے یہ سب ایک سے ہیں۔آخر کار پتہ یہی چلتا ہے کہ ساری انا ہوا بن گئی اور اکڑ نے کمر توڑ دی ایک شعر: جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو جھکا ہے وہ سر ہمارا ہے