پاکستان موجودہ دور میں دہشت گردی اور انتہا پسندوں کی جانب سے ٹارگٹ بنا ہوا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اس وقت واحد ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا شکار ہے ، پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہورہا کہ روزانہ کی بنیاد پر کسی بھی ملک کو دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ نہ بنایا جارہا ہو، بالخصوص سکیورٹی فورسز کو آئے روز نشانہ بنانے کا عمل شمال،مغربی سرحد سے ملحق علاقوں میں تشویش ناک حد تک اضافے کا سبب بن رہا ہے ، ان مذموم حملوں میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی شامل ہیں، جنہیں نامعلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ اور بے امنی کے حوالے سے خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور بالخصوص کراچی شہر کو بدترین صورتحال کا سامناہے ۔ کبھی انہیں سیاسی رقابتوں کی آپسی چپقلش قرار دیا جاتا تو کبھی گینگ وار تو ،کبھی کالعدم تنظیموں کو بھتہ نہ دیئے جانے پر جوڑ دیاجاتاہے ۔ پھر ایسے شواہد بھی سامنے آئے جس میں واضح طور پر بھارت کی خفیہ ایجنسی ’ را ‘ کے ملوث ہونے کی بات کی جاتی اور شواہد ظاہر کرتے کہ اس امر کا ہونا خارج از امکان نہیں کہ بھارت ،پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکنے کے لئے ایسی کارروائیاں کررہا ہے، جس کی وجہ سے بے امنی کا جواز پیدا ہوا اور سرمایہ کاری کا رجحان متاثر ہوا ۔ سری لنکا کرکٹ ٹیم حملہ اس کی واضح مثال ہے، جس کا براہ راست اثر پاکستانی معیشت پر پڑا ۔ برطانوی جریدے کی دستیاب شواہد کی بناء پر حالیہ رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے غیر ملکی سرزمین بالخصوص پاکستان میں مقیم اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے ایک خفیہ حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ 'دی گارڈین' کی ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2020 سے اب تک پاکستان میں 20 کے قریب افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے افسران کو اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی سے سہولت کاری ملی، جو ماورائے عدالت قتل کے لیے معروف ہیں۔ ان افسران نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا بھی حوالہ دیا اور کہا، ''جمال خاشقجی کے قتل کے چند ماہ بعد ہی وزیر اعظم کے دفتر میں انٹیلی جنس کے اعلیٰ افسران کے درمیان یہ بحث ہوئی کہ اس کیس سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔'' ایک سینیئر افسر نے میٹنگ میں کہا کہ ''اگر سعودیہ ایسا کر سکتے ہیں۔ تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟۔ امریکہ ، کینڈا سکھ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ پر بھی بھارت کو ذمے دار ٹھہرا جاچکا ہے۔ غیر ملکی سرزمین پر مخالفین کو ختم کرنے کی مبینہ حکمت عملی نہ صرف قانونی اور اخلاقی خدشات کو جنم دیتی ہے ، باالخصوص پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو برقرار رکھنے کی دانستہ کوشش کی نشاندہی کرتی ہے، جسکا مقصد ملک کی اقتصادی ترقی اور استحکام میں رکاوٹ ہے۔غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے ٹارگٹ کلنگ کے رپورٹ ہونے والے واقعات کی مکمل تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان الزامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جاری میڈیا کوریج اور تحقیقاتی رپورٹس صورتحال کی سنگینی پر روشنی ڈالتی ہیں، ان سنگین الزامات سے نمٹنے کے لیے شفافیت، احتساب اور بین الاقوامی جانچ پڑتال کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں بھارتی ایجنسیوں کے مبینہ ملوث ہونے کے بارے میں حالیہ انکشافات نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی ہے، جس سے سرحد پار سیکورٹی آپریشنز اور بین الاقوامی تعلقات پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 'دی گارڈین' کی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ میں تفصیل سے لگائے گئے الزامات، خفیہ کارروائیوں اور ماورائے عدالت کارروائیوں کی ایک پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں جو مبینہ طور پر مودی سرکار کی طرف سے ترتیب دی گئی ہیں۔رپورٹ میں 2020 ء سے اب تک پاکستان میں تقریباً 20 افراد کی ہلاکتوں کا انکشاف سامنے آیا، جو مبینہ طور پر نامعلوم مسلح حملہ آوروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ جن شواہد کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں گواہوں کے بیانات، گرفتاری کے ریکارڈ، مالیاتی لین دین، اور ڈیجیٹل کمیونیکیشنز جیسے مواد کی ایک رینج شامل ہے، جو ان ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کارندوں کے جدید ترین نیٹ ورک کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ذرائع کے مطابق پاکستان میں ان ہلاکتوں کی نگرانی کرنے والے ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (RAW) کے ہینڈلرز کی میٹنگیں مبینہ طور پر نیپال، مالدیپ اور ماریشس جیسے مختلف ممالک میں ہوئیں، جو ان کارروائیوں کے لیے ایک مربوط اور پہلے سے طے شدہ سازش کا حصہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ان ہلاکتوں کو انجام دینے کے لیے سلیپر سیلز کا قیام ان مبینہ کارروائیوں کی پیچیدہ منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کو مزید واضح کرتا ہے۔ پاکستان کو ہدف بنانے والے یقیناََ کالعدم عسکریت پسند گروپوں سے وابستہ افراد ہیں ،اور متعدد بار شواہد کے ساتھ عالمی برادری کے علم میں لایا جاچکا ہے کہ بھارتی فنڈنگ کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ امر بھی پاکستان شواہد کے ساتھ عالمی برادری کو ثابت کرچکا ہے کہ افغانستان سمیت پڑوسی ممالک کی سرزمین دہشت گردوں کو پناہ دینے اور حملے کرنے میں مکمل طور پر ملوث ہیں ۔ چونکہ خطہ ان الزامات کے مضمرات سے دوچار ہے ، لہذا یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ غیر جانبدار عالمی اداروں کو ان الزامات کے پس پردہ حقیقت کو مکمل تحقیقات اور خطے میں امن، سلامتی اور خودمختاری کے احترام کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے عزم کے ذریعے بے نقاب کیا جانا چاہیے۔پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے الزامات علاقائی جغرافیائی سیاست کی پیچیدہ حرکیات اور ان دعوؤں کے پیچھے سچائی کا پتہ لگانے کے لیے ایک جامع تحقیقات کی ناگزیر نشاندہی کرتے ہیں۔