گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔پاکستان میں سالانہ لاکھوں افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر کسی نا کسی ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد ملکی معیشت کیساتھ ساتھ گھر اور معاشرے پہ بھی بوجھ ہوتے ہیں۔ ان کے علاج معالجے پہ لاکھوں خرچ ہوتے ہیں اسکے باوجود گھر والے ان افراد کو ایک کارآمد اور باہنر فرد بنانے سے قاصر ہوتے ہیں ۔اسکی بنیادی وجہ یہاں کا ناقص اور بے حس نظام ہے۔ اگرچہ مختلف حکومتیں اپنے اپنے دور میں معذور افراد کے مسائل حل کرنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھاتی رہتی ہیں لیکن یہ کوششیں انکی مجموعی تعداد اور مسائل کے مقابلے میں بہت معمولی ہیں۔ مثلاً کچھ سال پہلے پنجاب حکومت نے معذور افراد کیلیے اسپیڈو بس کا انتظام کیا۔ بیرون ملک سے منگوائی گئی ان بسوں کا مقصد وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کو الگ اور سستی سواری فراہم کرنا تھا لیکن اس میں خاطر خواہ کا میابی نا مل سکی ، کیونکہ اسکے ریمپ کی فٹنگ اور معذور افراد کے اترنے چڑھنے میں کچھ تکنیکی مسائل سامنے آئے۔ پاکستان میں معذور افراد بہت مشکلوں سے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ آلات معذوری خرید بھی لیں تو ہماری سڑکوں کا انفرا سٹرکچر اتناخستہ اور تباہ حال ہے کہ انکے لیے سڑکوں پہ چلنا اور اپنی وہیل چیئر وغیرہ کو چلانا انتہائی دشوار ہے۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گٹروں کے کھلے منہ، ٹوٹے ہوئے فٹ پاتھ اور جابجا کچرے کے ڈھیر انکی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر نابینا افراد کیساتھ کیساتھ لاٹھی کے سہارے چلنے والے معذور افراد بھی دوسروں کی مدد کے منتظر ہوتے ہیں۔ کیونکہ سڑکوں پہ بھاگتی دوڑتی گاڑیاں چند لمحوں کیلیے بھی رکنا پسند نہیں کرتیں اور ایسے میں انکے لیے سڑک پار کرنا ایک جان لیوا مرحلہ ہوتا ہے۔ ویسے تو معذور افراد کے مسائل کی فہرست بہت طویل ہے لیکن آج میں صرف ٹریفک کے نظام پہ بات کرونگا کہ اس میں ایسے کونسے اقدامات کیے جائیں جن سے ان افراد کو سہولت اور آسانی فراہم کی جا سکے۔ ذہنی و جسمانی معذور افراد کیلئے ٹریفک کے نظام میں بہت سے جدید اقدامات کی اشد ضرورت ہے مثلاً ان کیلئے الگ راہگزر اور ریمپ بنائے جائیں، سڑک پار کرنے کیلیے ٹریفک سگنلز کے علاؤہ صوتی آلات نصب کیے جائیں جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے مثلاً اگر ایک نابینا شخص سڑک پار کرنا چاہتا ہے تو سگنلز بند ہوتے ہی سگنل لائٹس کیساتھ ایک مخصوص سائرن نما ہارن بجتا رہتا ہے جو نابینا افراد کی راہنمائی کرتا ہے کہ جب تک یہ سائرن بج رہا ہے سگنل کھلا ہے اور وہ بآسانی سڑک پار کر سکتے ہیں اور جب یہ آواز بند ہو تو وہ رک جائیں اور دوبارہ سگنل کھلنے کا انتظار کریں۔ نیز مسافر بسوں اور گاڑیوں میں ان افراد کیلئے نشستوں کی تعداد کو دو گنا بڑھایا جائے۔ بسوں اور ٹرینوں وغیرہ کے داخلی دروازوں پہ فولڈنگ ریمپ بنائے جائیں کہ جب کسی وہیل چیئر پہ بیٹھے شخص نے بس یا ٹرین وغیرہ میں سوار ہونا ہو تو اس ریمپ کو کھول کے بآسانی سوار ہوسکے۔ یہ ریمپ آٹو میٹک اور مینوئل دونوں ہو سکتے ہیں۔ میں نے یورپ میں بارہا یہ منظر دیکھا ہے جہاں معذور افراد کیلیے مسافر بسوں اور ٹرینوں میں مخصوص راستے اور ریمپ موجود ہوتے ہیں اور وہ بنا کسی دقت اور مدد کے خود چڑھتے اور اترتے ہیں۔ اسکے علاوہ سڑکوں کے کنارے، بازاروں ، شاپنگ سینٹرز ، ہسپتالوں، عوامی اور تفریحی مقامات پر معذور افراد کیلیے الگ نشستیں اور واش رومز کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ میں بلا تردد یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسی سہولیات صرف بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ باقی ہر جگہ یہ معذور افراد شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور کوئی انکی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ جسمانی طور پر معذور افراد کو دھتکارنے اور نظر انداز کرنے کی بجائے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ بھی معاشرے کے کارآمد اور ہنر مند افراد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کیساتھ جدید علوم میں ہنر سیکھنے سے وہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ نیز ان معذور افراد کو حکومت کی جانب سے سستی اور ذاتی سواری مہیا کی جانی چاہیے کہ جس میں وہ بلا تردد سوار ہو کر سفر کر سکیں جیسا کہ اسپیشل الیکٹرانک بائیکس ، موٹر سائیکل اور اسپیشل الیکٹرانک وہیل چیئرز۔ ترقی یافتہ ممالک میں اور یورپ کی سڑکوں پہ میں نے بے شمار ایسے معذور جوان اور بزرگان دیکھے ہیں جو الیکڑک وہیل چیئر یا بائیک پہ سوار ہوتے ہیں۔ خود انہیں چلاتے ہیں اور سوار ہوتے ہیں۔ عموماً یہ الیکٹرک سواریاں پیٹرول وغیرہ پہ نہیں بلکہ چارجنگ سسٹم کے تحت چلتی ہیں۔ اگرچہ یہ بہت مہنگی ہوتی ہیں لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان افراد کو رعایتی قیمت میں یا ماہانہ اقساط پہ فراہم کی جائیں۔ اس اقدام سے معذور افراد کو اعتماد ملے گا انکو مقامی گاڑیوں ، بسوں اور ویگنوں کے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور وہ اپنی روزمرہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے بنا کسی محتاجی کے سفر کر سکیں گے۔ نیز معذور افراد کیلیے الگ بسوں کیساتھ آ ٹو رکشہ یا گاڑی / ٹیکسی وغیرہ ضرور مہیا کی جانی چاہئیں تاکہ انکی نقل و حرکت کو آسان بنایا جا سکے۔ بحیثیت قوم معذوری کا یہ بوجھ ہم سب کو مل کے اٹھانا ہے اور اسکے لیے صاحب علم اور صاحب اقتدار طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں موجود اس مجبور اور محروم طبقے کو حتی الامکان خودمختار بنایا جا سکے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی جسمانی معذوری میں مبتلا شخص نے دن رات محنت کرکے خود کو ایک کارآمد ، خودمختار اور کامیاب شہری بنایا اور دوسروں کیلیے مثال قائم کی مثلاً منیبہ مزاری، ایک ٹریفک حادثے نے انکا نچلا دھڑ ہمیشہ کیلیے بے جان کردیا لیکن آج وہ پاکستان کی ایک نامور ماڈل، سنگر اور سماجی شخصیت ہیں۔ نیز سلیم کریم جنہوں نے پاکستان نابینا کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی اور خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے، انکی ایک ٹانگ پیدائشی طور پہ پولیو کا شکار تھی جبکہ دوسری ٹانگ ایک ٹریفک حادثے میں ناکارہ ہو گئی لیکن یہ ہمت و عزم کی بہترین مثال ہیں۔ اسکے علاوہ کیپٹن جمشید انور وڑائچ جنہوں نے 2010 میں وزیرستان میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا دیں لیکن آج وہ پروستھیٹک (مصنوعی ٹانگیں) پہنتے ہیں اور کامیابی سے فوج میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن ایسے کامیاب لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور انکی تعداد بڑھانے اور انہیں کامیاب بنانے کیلیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان میں تعلیم، صحت، علاج، نقل و حرکت کیلیے جدید سہولیات اور انفرا اسٹرکچر وغیرہ مہیا کرنے کیساتھ تکنیکی شعبوں میں بھی انکی مدد کی جائے اور دوسرے شہریوں کی مانند آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ (ختم شد)