محبوبِ سُبحانی شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا فرمان ہے:دین کی اصل عقل، عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے، لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو۔ ہمارے معاشرے کے علمائے کرام اس قول کی عملی تصویر ہیں ،جنھوں نے محدود وسائل میں صبر و شکر کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ہماری سوسائٹی نے علما ئے کرام کے ذمے چارکام لگائے تھے ۔پنجگانہ نمازکی امامت،پیدائش کے وقت بچے اور بچی کے کان میں اذان و اقامت، نکاح خوانی اور نماز جنازہ۔آپ کو زندگی بھر کبھی یہ لفط سننے کو نہ ملا ہو گا کہ ان مواقع پر مولوی صاحب ہڑتال پر تھے یا انھوں نے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا ہو کہ پہلے تنخواہ میں اضافہ کرو۔ ملک بھرکی مساجد میں یہ علما ئے کرام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ ادا کررہے ہیں ۔سوسائٹی نے جو فرض انھیںسونپا ،انھوں نے اخلاص کے ساتھ اسے نبھایا۔ سرکاری مساجد جو محکمہ اوقاف مذہبی امور کے زیر انتظام ہیں، وہاں پر بظاہر تو ائمہ مساجد اور مدرسین کے سرکاری گریڈ ہیں لیکن عام سرکاری ملازم اور سرکاری امام مسجد کی تنخواہ میں نمایاں فرق ہے۔باقی عملے کا بھی۔حکومت پنجاب نے مہنگائی کے باعث جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25اور15فیصد اضافہ کیا تو محکمہ اوقاف پنجاب کے ملازمین اس سے محروم رہے ۔کسی نے ان فقراء کی جانب توجہ دی نہ انہوں نے مطالبات کے حق میں جلوس نکالے کیونکہ ان علما ئے کرام کی ایک ایسے ماحول میں تربیت ہوئی ہے،جسے مدرسہ کہتے ہیں ۔بقول سید ابو الحسن علی ندوی ؒ ’’مدرسے کا کام ایسے باضمیر، باعقیدہ، با ایمان، باحوصلہ اور باہمت علما پیدا کرنا ہے، جو اس ضمیر فروشی،اصول فروشی اور اخلاق فروشی کے دور میں روشنی کے مینار کی طرح قائم رہیں‘‘۔ ماضی کی کسی حکومت نے ان علما ئے کرام کی خاطر مدارت کی نہ ہی انھیںعام سرکاری ملازمین جیسا درجہ دیا گیا ۔حالانکہ جب ڈینگی وائرس نے پنجے گاڑھے تو منبر ومحراب سے ہی حفاظتی انتظامات کی آوازیں بلند ہوئیں۔کورونا وائرس کی ویکسینیشن کے بارے میں ایک پروپگنڈا بلند ہوا، تو انھیں علمائے کرام نے اس کا توڑ کیا۔ ملک میں امن و امان کا مسئلہ درپیش ہوا،تو انھیں علما ئے کرام نے آگے بڑھ کر امن ،بھائی چارے اور محبت کی فضا قائم کرتے ہوئے کہا: اپنا مسلک چھوڑو نہ کسی کا مسلک چھیڑو ۔ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے جب بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی سازش ہوئی تو اسی طبقے نے آگے بڑھ کر حکومتی مشکلات کم کیں ۔اس کے باوجود ان کے ساتھ ایسا رویہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ علمائے کرام انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، جبکہ ائمہ جس مصلے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں، اسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصلیٰ سمجھا جاتا ہے،جس منبر پر خطبہ دیتے ہیں، اسے منبر رسولؐ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ اس حوالے سے علماء اور ائمہ معاشرہ میں جناب نبی اکرمؐ کی نیابت اور نمائندگی کے منصب پر فائز ہیں ۔اس منصب کو حال ہی میں چوہدری پرویز الہٰی وزیراعلیٰ پنجاب نے پہنچانا ہے بلکہ علما ئے کرام کی شایان شان حوصلہ افزائی کی ہے ۔محکمہ اوقاف پنجاب کے ملازمین کا ایک درینہ مطالبہ آئمہ وخطبا کی اَپ گریڈیشن کا تھا۔ وسائل کی کمی کو بنیاد بنا کر ہر دور میںاسے وعدہِ فردا پر ٹرخایا گیا ۔چوہدری صاحب نے نہ صرف احکامات جاری کیے بلکہ 30کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کی۔یہی وجہ ہے کہ منبر و محراب سے ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں ۔اپنے پہلے دور میں انھوں نے اہم پراجیکٹ "پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز" بنایا تھا، بدقسمتی سے کسی حکومت نے اسے فنگشنل ہی نہیں ہونے دیا ۔ دراصل اس میں ان بیورو کریٹ بابوں کا قصور نہیں، انگریز ی نظام میں ان کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے ۔ انگریز کی آمد سے پہلے لفظ ’’مولوی ‘‘معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصا پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، سردار اوروڈیرے شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں’’کمی‘‘ یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی، جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ’’دین قیم‘‘ کو تا صبح قیامت اس دھرتی پر قائم ودائم رہنا ہے۔ اس کی نشرواشاعت، حفاظت و صیانت اور موثر دعوت کے لیے ایسے رجال کار کا ہونا ناگزیرہے، جو معاشرے کو شرکے اوہام باطلہ و خیالات فاسدہ کی گلن و سڑن سے بچا کر خیر کے افکار ونظریات صحیحہ کی خوشبو اور مٹھاس سے روشناس کراسکیں۔ جو باطل کی ملمع سازی کا لباس حق کی شمشیر فاصل سے چاک کر سکیں۔ جن کے کردار میں میانہ روی، راست بازی اور صداقت شعاری کی شمع فروزاں ہو۔ امت کی چودہ سو سالہ نوشتہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ علوم وحی کے ان وارثوں اور جانشینوں نے زمان ومکان اور حالات کی ادلتی بدلتی اور الٹتی پلٹتی ہواؤں کے دوش بہ دوش چلنے کی بجائے ’’قبلہ نما‘‘ بن کر ملت کی گاڑی کو شاہراہ ہدایت کی جانب گامزن کرنے کا فریضہ مکمل استقامت و عزیمت، تندہی وجانفشانی اور ہمت وشجاعت کے ساتھ سر انجام دیا ہے۔ خیرامت کی اس چشمہ صافی سے نکلنے والی تشنہ سیر نہروں نے اپنے آب شیریں سے چار دانگ عالم کو سیراب کیا۔ پیاسوں کو تشنگی کا سامان، بھٹکے ہوؤں کو منزلوں کا پتا اور ضلالت کی تاریکیوں میں شب بسر کرنے والوں کو نور ہدایت کی نوید ملی۔ ’’کام‘‘ کی اسی اہم آہنگی کی وجہ سے ’’مدینۃ العلم‘‘ نے شہر علم و آگہی کے ’’خوشہ چینیوں‘‘ کو اپنا نائب و وارث قرار دے کر امت کے بقیہ طبقات پر ان کی فوقیت و فضیلت کی مہر استناد نقش فرمادی۔ آج ایک بار پھر ان کے اسی مقام کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔چوہدری پرویز الہی وزیر اعلیٰ پنجاب نے جو نوازش کی ،جن لوگوں نے اس سلسلے میں کردار ادار کیا ،چیف ایڈمنسٹریٹروسیکرٹری اوقاف جناب میاں ابرار ۔ڈائریکٹر جنرل مذہبی اموراوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری اور ان کی پوری ٹیم اس کامیابی پر مبارک باد کی مستحق ہے ۔