خدا خدا کر کے الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر ڈاؤن لوڈ کر دیے ہیں مگر کوئی بھی ذی شعور ان کا جائزہ لیتا ہے تو اسے الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ کردار پر بے حد دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ کس دیدہ دلیری سے الیکشن نتائج کو ٹمپر کر کے اپنے من پسند امیدواروں کو کامیاب کرایا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فارم 45 کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے بے دھڑک ا ٹمپرنگ کی ہے کہ ایک بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ ریٹرنگ افسران نے اپنے ضمیر اور ایمان کا کس طرح سودا کیا ہے اور عوام کے اجتماعی مینڈیٹ کو حقدار سے چھین کر ناکام امیدواروں کو کامیاب کرا دیا ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والوں اور الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ ممبران جو بھاری بھر کم تنخواہوں کے ساتھ پنشنز بھی لے رہے ہیں وہ اس دھاندلی اور قومی بددیانتی پر جس طرح خاموش ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جب آئینی اداروں میں بیٹھنے والے افراد ہی عدل و انصاف نہیں کریں گے، ملک میں انارکی نہیں پھیلے گی تو اور کیا ہو گا ۔زخم خوردہ عوام ان بے حس اور بے ضمیر طاقتور افراد کو گالیاں نہیںدیں گے تو اور کیا کریں گے آج بھٹو کے ناحق قتل کیس میں سپریم کورٹ یہ تسلیم کر رہی ہے کہ ان کو فئیر ٹرائل نہیں ملا تو کیا اس سے بھٹو زندہ ہو جائے گا وہ الگ بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو بھٹو کی شہادت راس آگئی ہے کل جب طاقت کا توازن تبدیل ہو گا تو پھر یہی سرکاری ملازمین کہیں گے کہ ملازمت کی مجبوری تھی ایسی ہی بات نسیم حسن شاہ نے کہی کہ ججوں کو اپنی نوکری اور تنخواہ کی مجبوری ہوتی ہے یہ کیسے انسان اور مسلمان ہیں جہنیں رزق کے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں مگر وہ جو ریٹائرڈ ہوکر اربوں کما کر دوبارہ لاکھوں روپوں کی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اور عوام کے ساتھ اجتماعی فراذ اور جعلسازی کرتے ہیں وہ ہمیشہ عوام اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم رہیں گے چاہے جتنے بھی مذہبی اور حاجی نمازی کیوں نہ ہوں ۔اللہ تعالیٰ حقوق العباد پر ڈھنڈی مارنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ عبادت گزار ہو کر چوری چکاری، رشوت کے عوض کیوں بے ایمانی اور جعلسازی کرتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے یہ باور کراتے ہیں کہ نماز فرض ہے مگر چوری چکاری ان کا پیشہ ہے کیونکہ ان کا سرکاری تنخواہوں میں گزارا نہیں ہوتا ہے۔ ابن زیاد کو کسی نے سمجھایا کہ امام حسین ؓ حق پر ہیں تم ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ہو اور انہیں شہید کرنے پر درپے ہو اس نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام عالی مقام حق پر ہیں یقیناً ان کی حمایت سے آخرت میں اجر ملے گا مگر کیا کروں دنیا نقد ہے اور آخرت ادھار اس لیے یزید کا ساتھ دے رہا ہوں۔ بھٹو قتل کیس کے مجرم ہوں یا عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے وہ ایک طرف تو خدا کے ہاں قصور وار ٹھہریں گے اور دوسری طرف لوگ تاقیامت تاریخ کے کوڑے دان میں رہیں گے ۔ جس ڈکٹیٹر کے ا دور میں بحٹو کو سزا دی گئی اس کا انجام بھی عبرت ناک ہوا ،جو لوگ اعلی عہدوں پر براجمان ہو کر مخلوق خدا سے زیادتی کرتے ہیں یا منصف ہو کر قانونی موشگافیوں کے ذریعے بے انصافی کرتے ہیں تو ایسی قوموں پر اللہ پاک تباہی نازل کر دیتے ہیں ۔نبی پاک محمد صل اللہ علیہ والہ سلام کا ارشاد ہے کہ تم سے پہلے امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے حکمران اور قاضی کمزور کو سزا دیتے تھے اور طاقت ور کو چھوڑ دیتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک کافر کو نیچے گرا کر اس کو قتل کرنے والے تھے تو اس نے آپ کے چہرہ مبارکہ پر تھوک دیا جس پر حضرت علی نے اسے یہ کہ کر چھوڑ دیا کہ اب میں ت تمہیں ماروں گا تو اس میں میرا ذاتی غصہ ہو گا ہمارے ہاں کسی محروم پارٹی کا کیس وہی جج یا آئینی سربراہ سن رہا ہے جس پر اس پارٹی کو اعتماد نہیں ہوتا ۔ جب کسی سیاسی جماعت کا الیکشن کمیشن ایکٹ کے تحت نشان چھین لیا جائے مگر آئین کے آرٹیکل 17 کا اطلاق ہی نہ کیا جائے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونگے اور آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوں تو پھر قانون کی آڑ لے کر ان کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا جائے اور سونے پر سہاگہ کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو دے دی جائیں۔ سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدوار اس لیے شامل ہوئے کہ ان کی پارٹی کو الیکشن میں بین کیا گیا اگر تمام سیٹیں آزاد امیدوار جیت جاتے تو کیا پھر بھی ان کی بنیاد پر بننے والی جماعت کو مخصوص سیٹوں سے محروم رکھا جاتا۔ قانون انسانوں کو عدل وا انصاف دینے کے لیے ہوتا نہ کہ ان کی حق تلفی کے لیے،مگر ہمارے عدالتی نظام میں جھوٹی شہادتوں پر بے گناہ پھانسی چڑھا دئیے جاتے ہیں اور قاتل اور مجرم شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہو جاتے ہیں عوام کی اکثریت کو اس طرح الجھا دیا گیا کہ سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہانی آپ الجھی ہے، کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا پاکستان کے جملہ مسائل اور مصائب کی جڑ کا سوراخ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں حکومتیں محلاتی سازشوں اور جھرلو الیکشنوں سے وجود میں آتی رہی ہیں یا پھر آئین کو روند کر فوجی ڈکٹیٹرز اقتدار پر قابض رہے یہی وجہ ہے کہ کہ موجودہ متنازع الیکشن کے بعد بھی اس ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے حالانکہ اگر ہم نے جمہوریت پر چلنا ہے تو تو اس کے مندرجہ ذیل خدوخال پر عمل کرنا ہوگا ۔عوام کے منصفانہ اور شفاف انتخابات کے مطابق حکومت قائم کرنا منتخب آئینی کا قانون، دستور اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض سرانجام دینا ،سرکاری ملازمین کو اپنے حلف کے مطابق کام کرنا اور دباؤ کے سامنے نہ جھکنا ، عدلیہ کا انتظامیہ پر کڑی نظر رکھنا کہ وہ بے ایمانی سے باز رہیں، ،سول سروس قائد اعظم کے احکامات پر عمل کرے اور پاکستان کے مفاد کو مد نظر رکھے نہ کہ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر نوکری کریں ،، پارٹی وفاداری کا احترام اور فلور کراسنگ سے اجتناب ، الیکشن کمیشن کا سربراہ اور ممبران کی غیر جانبداری مثالی ہو ، جن لوگوں کے ساتھ الیکشن میں دھاندلی کی گئی ہو اس کا فوری آزالہ ،یہ وہ چند خصوصیات ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہم ایک جمہوری نظام حکومت کو قائم کر سکتے ہیں وگرنہ جمہوریت کو طاقت ور افراد کی باندی بنا کر رکھنا ہے اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے غیر شفاف انتخابات کے ذریعے من مرضی کی حکومتیں بنانی ہیں تو یہ عوام کے اندر اضطراب اور بے چینی میں اضافہ کرے گا اور ملک کبھی بھی سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو پائے گا۔