لاہور کی تاریخ پر نیا کام شروع کر چکا ہوں۔ابتدا میلہ رام کی لال کوٹھی سے کی۔کربلا گامے شاہ کی دیوار سے ملحق حزب الاحناف ہے۔ دینی تعلیم کا یہ ادارہ غازی علم الدین شہید کی نماز جنازہ پڑھانے والے سید دیدار شاہ کے فرزند ابوالبرکات سید احمد قادری نے قائم کیا۔حزب الاحناف کے موجودہ مہتمم مصطفی رضوی ہیں۔ ان کے بھائی پیر مختار شاہ رضوی سے ملاقات طے پائی۔ مختار شاہ صاحب خود لاہور میں سیاسی و دینی سرگرمیوں کی تاریخ ہیں۔ان کے پاس کئی طرح کی معلومات ہیں جنہیں تاریخ کا ریکارڈ ہونا چاہئے ۔حزب الاحناف کی عمارت رائے بہادر میلہ رام کی لال کوٹھی میں قائم ہوئی۔یہ کوٹھی لاہور کی کاروباری ، ثقافتی اور علمی تاریخ کا مرکز رہی ہے۔ یہاں اپنے عہد کے نامور گانے والے ، سیاستدان اور فاضل لوگ رائے بہادر کے مہمان ہوا کرتے۔ علامہ اقبال کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ان محافل کا حصہ رہے ہیں ۔یہ موضوع کئی حوالوں سے بھر پور ہے۔ایک حوالے نے میرا سر چکرا دیا۔پیر مختار شاہ صاحب نے بتایا کہ داتا دربار روڈ پر کربلا گامے شاہ کی گلی کے ساتھ 2006ء میں انہوں نے پلازہ بنانے کیلئے کھدائی کرائی۔آٹھ فٹ تک بنیادیں کھودی گئیں۔تعمیراتی مزدور یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ کھدائی کے دوران بنیادوں اور بیسمنٹ والی جگہ کے نیچے سے بہت سے انسانی ڈھانچے نکل رہے تھے۔ شاہ صاحب کے بقول تمام لاشیں بالغ افراد کی معلوم ہوتی تھیں۔لاشوں کے اوپر ملتانی مٹی جیسی ایک تہہ سی تھی۔یہ لاشیں قبروں میں نہیں تھی بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں کسی جگہ لٹا کر ایک ہی بار سب پر مٹی ڈال دی گئی۔میلہ رام کا خاندان تقسیم کے وقت بھارت چلا گیا تھا اس خاندان کو نقل مکانی کے دوران کوئی دقت نہیں ہوئی۔دستیاب شواہد کے مطابق میلہ رام کے خاندان کا کوئی فرد یا ملازم تقسیم کے فسادات میں قتل نہیں ہوا ،انکے خاندان کے جو لوگ بھارت منتقل ہوئے وہ بھی کسی طرح کے خون خرابے کا ذکر نہیں کرتے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنی ساری لاشیں کن لوگوں کی تھیں۔ سب سے پہلے میلہ رام سے قبل اس جگہ کی شناخت کا معاملہ تھا۔میلہ رام کی شخصیت‘ خاندان اور لاہور میں ان کی یادگاروں کے متعلق آئندہ بات ہو گی ۔ابھی مجھے صرف ان لاشوں کا معمہ حل کرنا تھا۔جس قدر حوالے میرے پاس موجود تھے ان کی چھان بین سے لاہور کے اس حصے میں بہت بڑی قتل و غارت کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ہاں بیرون بھاٹی و لوہاری گیٹ کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن اگر یہ لاشیں سپاہیوں کی ہوتیں تو لاشوں کے ساتھ کوئی ہتھیار یا اس نوع کی دھاتی چیزیں بھی ملتیں۔پیر مختار شاہ صاحب سے میں نے اس تعمیراتی ٹھیکیدار کا نمبر لیا جس نے یہاں کھدائی کی تھی۔احمد بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے کرینوں سے کھدائی کی۔لاشیں ایک تہہ کی صورت میں پڑی تھیں۔نیچے کی مٹی دریائی گھسو تھی۔ میں نے پوچھا کوئی کپڑا‘ زیور یا دیگر چیز ملی؟ ٹھیکیدار نے نفی میں جواب دیا۔اس کا کہنا ہے کہ اگر اس علاقے میں آج بھی مناسب انداز سے کھدائی کی جا سکے تو ایسے ڈھانچے مل سکتے ہیں۔ٹھیکیدار نے بتایا کہ ڈھانچوں کی تعداد 50سے 60تک تھی اور ان میں کوئی بچے کا نہیں تھا۔پنجاب میں تین نسل پہلے تک مرد زیور پہنا کرتے تھے ، کان میں نتیاں، ہاتھ میں کڑا اور انگوٹھی عام تھی ۔ صرف معمول کے تدفینی عمل میں لاش کا زیور اتار لیا جاتا ہے ۔ نقوش کے لاہور نمبر میں بیرون بھاٹی دروازہ محلہ شیخ اشرف کا ذکر ہے۔تفصیل بتائی گئی ہے کہ موجودہ ضلع کچہری کی طرف آتے ہوئے یہاں ایک محلہ آباد تھا۔اس محلے میں اورنگزیب کے دور میں ایک مشہور عامل شیخ اشرف رہتے تھے۔انہوں نے یہاں ایک عالی شان مسجد اور رہائشی مکانات بنوائے۔اس لئے اس بستی کا نام محلہ شیخ اشرف مشہور ہوا۔وفات کے بعد ان کی قبر اسی جگہ بنائی گئی۔بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس جگہ خندق تعمیر کرنے کے لئے اس مسجد و مکانات کو بارود سے اڑا دیا۔شیخ اشرف کی لاش نکال کر میانی صاحب قبرستان میں دفن کر دی گئی۔کنہیا لال ہندی کی’’تاریخ لاہور‘‘ میں اس کا نام شاہ شرف کا محلہ لکھا ہے۔اس محلے کا مقام بتاتے ہوئے کنہیا لال کہتے ہیں کہ ’’بھاٹی دروازے سے لے کر ضلع لاہور کی کچہری و برف خانے تک اس کی آبادی تھی۔غارت گروں نے اس محلے پر بار بار حملہ کیا۔ ہر بار لوگوں کو مارتے اور دولت لوٹ لیتے۔رنجیت سنگھ نے اقتدار سنبھالا تو اہل لاہور کو امن ملا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دفاعی ضرورت کے تحت بھاٹی دروازے کے سامنے میدان کھلا کرنے کا حکم دیا تو مسجد و مقبرہ دونوں گرا دیے گئے۔شاہ شرف کی لاش فقیر عزیز الدین کی نگرانی میں احاطہ مزار حاجی محمد سعید میں بہ مقام رولا واڑی میانی صاحب دفنایا گیا۔مہاراجہ نے مزار کی یادگار کے طور پر نابود کئے گئے محلے میں ایک چھوٹا سا چبوترہ پختہ بنا دیا۔اس مسجد و مقبرے کی پختہ بنیادیں انگریز دور تک موجود تھیں۔ٹھیکیدار احمد بھٹی نے کھدائی کے دوران کچھ مضبوط بنیادیں ملنے کا بتایا۔ممکن ہے وہ اس مسجد اور مقبرے کی ہوں۔ لاہور میں اجتماعی تدفین کے دو بڑے مقامات ہیں ایک شاہی قلعہ کے مشرقی جانب جہاں غزنوی حکمرانوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں جنگ ہوئی اور دو ہزار لوگ مارے گئے۔ان کو یہاں دفن کر کے اوپر ایک قبر بنا دی گئی۔دوسرا مقام لنڈا بازار میں ہے۔ شاہ شرف کی مسجد و مقبرہ عالمگیری عمارات تھیں۔مسجد و مقبرے کے گنبدوں پر سنگ مر مر لگا تھا۔ بیرونی دیواریں سنگ سرخ کی تھیں۔اندرونی عمارت کاسنی کار تھی۔ تحقیقا ت چشتی میں کنہیا لال کے لکھے نام کو غلط بتایا گیا ہے۔مفتی غلام سرور نے شیخ اشرف کا قطعہ تاریخ یوں لکھا ہے: چو اشرف برفت از جہاں فنا…نہاں شد یکے آفتاب شرف چو جسم زدل سالِ ترحیلِ او…عیاں شد یکے آفتاب شرف غارت گروں کے دور میں محلہ اجڑا تو یہاں بھنگیوں نے ٹھکانہ بنا لیا۔لاشوں کا معاملہ سلجھتے سلجھتے پھر الجھ گیا کہ درگاہی محلہ ہال روڈ کے قریب ہے جہاں کی سیدانیوں نے سکھ غارت گروں کے خوف سے اجتماعی خودکشی کر لی تھی۔