ہندوستان میں اقلیتی طبقوں بالخصوص مسلمانوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست حکومت کے سخت مظالم کا سامنا ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی پرتشدد نظریات رکھنے والی دائیں بازو کی جماعت نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی ہے ہندوستان بھر میں سیاسی مخالفین سمیت غیر ھندوؤں بالخصوص مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ اَقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی پشت پناہی کے سلسسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بے اِعتنائی کی تازہ مثال ہندوستان کی ریاست منی پور میں ہونے والے دلخراش واقعات کی ہے جہاں حکمران جماعت بی جے پی نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ وہاں کے اکثریتی آبادی کے حامل میتئی قبیلے کی طرف سے کوکی قبیلے کی عورتوں کے ساتھ کی جانیوالی دل دہلا دینے والی زیادتیوں کے پیچھے منی پور ریاست کی حکمران جماعت بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ میتئی قبیلے کے لوگ مذہباً ہندو ہیں جبکی کوکی قبیلہ کے افراد عیسائیت کے ماننے والے ہیں۔ اس طرح دونوں قبیلوں کے مابین جاری کشمکش اب مذہبی شکل اِختیار کر چکی ہے۔ اِس سے قبل کرناٹکا میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے جنوری 2022 میں سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کا فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں سے اِمتیازی سلوک کی مثال ہے جبکہ کرناٹکا کی ھائی کورٹ نے بھی حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا۔ حجاب تنازعہ جنوری 2022 میں اس وقت شروع ہوا جب کرناٹکا کے اْڈپی ضلع میں ایک سرکاری سکول نے حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا، جس پر مسلمانوں نے مظاہرے شروع کر دیے ۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں تعلیم اور مذہب کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے زعفرانی شالیں پہنے ہوئے ہندو طلبا کی طرف سے جوابی مظاہرے ہوئے۔ زعفرانی رنگ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور ہندو قوم پرستوں کی طرف سے شناخت کے طور پر اِستعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت کی بی جے پی حکومت کے خلاف 1 نومبر 2022 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) نے یونیورسل پیریڈک ریویو (UPR) کے دوران انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تحفظات کا اِظہار کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ مذہبی امتیاز اور جنسی تشدد پر سخت موقف اپنائے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) میں یونیورسل پیریڈک ریویو کے تحت رکن ممالک کا ہر چار سال بعد اجلاس منعقد ہوتا ہے جو رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو جانچنے کا طریقہ کار ہے۔ انسانی حقوق کونسل اقوام متحدہ کے تحت ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ذمہ دار ہے۔ UPRکا جائزہ لینے کا طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006 میں قائم کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ہر چار سال بعد اس جائزے سے گزرتے ہیں۔ رکن ممالک کو ایک دوسرے کو سفارشات دینے اور پچھلے اجلاسوں سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ حتیٰ کہ نومبر 2022 میں جنیوا میں منعقد ہونے والے چوتھے UPR جائزے کے دوران، رکن ممالک نے ہندوستان سے "انسداد دہشت گردی" کے قوانین کے وسیع اطلاق کو کم کرنے کا بھی کہا تھا۔ منی پور میں اقلیتی قبیلے کے خلاف ہونے والے مظالم کی روک تھام میں ناکامی اور انسانیت سوز واقعات پر معنی خیز خاموشی کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ حتیٰ کہ اِس اہم اشو پر بھارتی وزیرِاعظم کو موقف دینے پر مجبور کرنے کے لیے بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے لوک سبھا میں وزیرِاعظم مودی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی ہے۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو لوک سبھا میں واضح برتری حاصل ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد لانے کا واحد مقصد بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کو منی پور کے واقعات پر بولنے پر مجبور کرنا ہے۔ اقلیت اور مسلمان کش پالیسیاں ایک نسلی ہندو ریاست کے لیے RSS-BJP کے ایجنڈے کا لازمی جزو ہیں اور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اِن پالیسیوں سے اِس حد تک کممٹڈ ہے کہ آسانی سے مذمتی بیان بھی جاری نہیں کرتی۔ اِسی طرح نریندر مودی کی حکومت، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کا بھی بے جا اور غیر منصفانہ استعمال کرتی ہے، خاص طور پر اقلیتی گروپوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف۔ یو اے پی اے ایک "انسداد دہشت گردی" کا قانون ہے جس کے تحت حکام شک کی بنیاد پر کسی کو "دہشت گرد" قرار دے سکتے ہیں اور بغیر ضمانت کے مہینوں تک حراست میں لے سکتے ہیں۔ اِس قانون کو اَقلیتی گروپوں خصوصاً مسلمانوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے اَرکان کے خلاف اِستعمال کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2022 میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے پر طلباء اور کارکنوں سمیت مسلمانوں کی ایک وسیع تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ شہریت ترمیمی ایکٹ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق نہیں ہے جس کی وجہ سے اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ 15 مارچ 2022 کو اِتفاق رائے سے منظور کی گئی اپنی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور بھارت میں پسماندہ گروہوں جیسے دلت، خواتین، آدیواسی اور دیگر مذہبی اقلیتوں ، مسلمانوں کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک اور ان کے مذہبی اور بنیادی اِنسانی حقوق کی سلبی کا نوٹس لیتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور دے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو حقِ خود ارادیت دے اور ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتی طبقات کے بنیادی انسانی حقوق کی تلفی سے باز رہے۔