سید سلمان گیلانی، صاحبِ مروت‘ فیاض‘ سیر چشم و متواضع آدمی ہیں‘ نیک نامی اور خوش الحانی انہیں ورثے میں ملی‘ ہنسی، مذاق اور طنزو مزاح سے محفل کو کُشت زعفران بنانے کا سلیقہ انہیں خوب آتا ہے۔اس کے باوجود زہد و تقوی‘ شرم و لحاظ ان کا طرہ امتیاز۔ ان کی قربت سماعت سے بہتر، حد درجے کی ایسی کشش کہ طبیعت کبھی نہ اکتائے۔ایسی لطافت‘ نظافت، پاکیزگی اور نورانیت ان کے ہم قافلہ میںکہاں۔ ان کی کتاب کا لفظ لفظ قابل داد‘ بعض فقرے تو تحسین سے بالاتر۔واقعات حیران کن‘ اندازِ تحریر مسحور کن۔’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ نتیجتاًایک تاریخ‘ جی ہاں ادبی شاہکار۔ برنارڈشا نے کہا تھا: وہ مقام جہاں خواہش قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں‘ اسے خوش بختی کہتے ہیں۔سید زادہ آج اسے مقام پر فائز ہے۔ شاعر ‘ مصور‘ انشاء پرداز عوام کے روبرو نہیں آتے‘ نہ ان کا فن شخصی حاضری کا متقاضی ہوتا ہے۔مگر نعت خواں کی پہلی چیز شخصی حاضری ہے۔خطابت کے اصول‘ آواز‘ اظہار ‘ تکنیک ‘ اسلوب‘ سلاست ‘ متانت‘ اشارات‘ ظرافت‘ تشبیہات، استدلال اور انفرادیت۔ سید سلمان گیلانی کا خاصہ۔ تلفظ کی صحت‘ الفاظ کا استعمال‘ مطالب کا عمق‘ فقروں کی آرائش‘ لہجہ کی رونق‘ بیان کی رنگینی‘ احساس کی گہرائی کے ساتھ ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ انھیں والد محترم سے ملا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں کتاب لکھنے،پڑھنے اور فروخت کرنے کا رواج نہیں ۔مگر علامہ عبد الستار عاصم’’قلم فاونڈیشن ‘‘ کے تحت کتابیں چھاپی ہی جا رہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض تحریریں اور تقریریں شب برات کے پٹاخوں اور پھلجھڑیوں کی طرح مصنوعی بہار دکھا کر بجھ جاتی ہے مگر ’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘کتاب پڑھتے وقت کسی مقام پر آنکھوں میں آنسو آ جائیں تو آنے دیجیے گا، دل کا میل اترے گا،بوجھ ہلکا ہو گا۔اسی طرح بعض مقام پر ہنسی بھی مت روکنا‘ کیونکہ یہ زندہ دلوں کی نشانی ہے۔ سید سلمان گیلانی کی تحریر پڑھیں اور محظوظ ہوں’’ننکانہ کالج میں انٹر کالجیئٹ مشاعرہ تھا میں گورنمنٹ کالج شیخو پورہ کی نمائندگی کر رہا تھا۔ مہمان شعرا نے فیصلہ کیا کہ سکھ برادری کے مشہور گوردوارے اور بابا نانک کے ساتھ منسوب اشیاء کی زیارت کرنے چلتے ہیں۔ہم دس بارہ لڑکے چلے گئے، خیر انہوں نے خوب ٹہل سوا کی اور اپنے تمام متبرکات کی بڑی عقیدت سے زیارت کروائی۔میں نے ایک سردار سے کہا: آپ کے بابا نانک اور ہمارے پیر حضرت پیر فرید گنج شکرؒ ہم عصر ہیں، وہ بولا ’’کی مطلب جی‘‘ میں نے کہا: سنا ہے ایک دَور کے تھے۔ بابا نانک کے اشلوک اور بابا فرید کے دوہڑے آپس میں بہت ملتے ہیں۔وہ سردار حیران ہو کر بولا ’’اچھا جی کِی ناں دسیا جی‘‘ میں نے کہا: پیر فرید۔ پھر کچھ دیر سوچا جیسے بڑی تاریخی یادگاروں میں کھویا ہوا سوچ رہا ہے، کس کتاب میں پڑھا ہے یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر بولا ’’کِی ناں دَسیا جی کہڑا پیر جی‘‘ میں نے ذرا تلخ لہجہ میں کہا: سردار جی بتایا تو ہے پیر فرید گنج شکرؒ اب اس نے وہ تاریخی جملہ بولا جس سے پتہ چلا کہ واقعی اصلی سردار ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ مار کے ایک پنجابی کی گندی سی گالی دیکر بولا ’’تُساں دسیا اے کہ دوئیں اِکو دَور دے سَن تے ہون گے جی آپاں کہڑا اوناں دے نال کوڈی کھیڈ دے رہے ہاں‘‘ یعنی آپ کہتے ہیں دونوں ایک دور کے تھے تو ہونگے ہم کون سا ان کے ساتھ کبڈی کھیلتے رہے ہیں۔ صفحہ 77پر لکھتے ہیں :مشہور بیورو کریٹ مسعود کھدر پوش فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے پرسنل سٹاف میں تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی خدمت کی ایک این جی او چلاتے رہے۔ایک مرتبہ ان سے میری ملاقات مغل پورہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی ایک تقریب میں ہوئی۔ انہوں نے ایک عجیب قصہ سنایا کہ صدر مملکت ایوب خان مرحوم نے کہا ہماری قوم عربی سے نابلد ہے۔ہمارا قرآن اور نماز سب عربی زبان میں ہے کیوں نہ آرڈر کر دیا جائے کہ نماز اردو میں ادا کی جائے۔قرآن کا ترجمہ پڑھایا جائے۔میں نے عرض کیا: جناب علماء کرام سے مشورہ ضروری ہے، تجویز تو بہت اچھی ہے۔اس سے بدعات بھی کم ہونگی، ان پڑھ لوگ جب قرآن میں شیطان ‘ حمار‘ خنزیر‘ کلب‘ خمر‘ کے تراجم پڑھیں گے تو سوچیں گے تو سہی کہ یہ کیا پڑھ کر اپنے بزرگوں کو ایصال ثواب کر رہے ہیں۔ سو آہستہ آہستہ معاذ اللہ یہ بدعت مٹ جائے گی۔صدر صاحب نے کہا: یہ ٹاسک آپ کے ذمہ ہے، علماء سے ملو اور جلد مجھے رپورٹ دو۔مسعود صاحب کہتے ہیں: میں نے سوچا کس عالم سے پہلے بات شروع کروںِ تو دل نے کہا: مولانا ادریس کاندھلویؒ سے ابتدا کرتا ہوں، چنانچہ جامعہ اشرفیہ کا رخ کیا اور حضرت جی کو صدر صاحب کے پیغام کا بتایا کہ ان کے حکم پر آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔میں وہاں پہنچا خوب مدارات ہوئی آمدن برسر مطلب عرض کیا کہ حکومت چاہتی ہے قرآن کا صرف ترجمہ ان پڑھ عوام کو کافی ہے، جب عربی زبان سمجھ ہی نہیں آتی تو عربی پڑھنے پڑھانے کا کیا فائدہ ہے اس لئے اذان و نماز اردو میں ہو تو بہتر ہے۔کہتے ہیں میں دیکھ رہا تھا، مولانا کا رنگ متغیر ہو گیا مارے غضب کے بدن تھر تھر کانپنے لگا اور مجھ سے فرمایا: مولوی صاحب یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔قسم خدا کی اگر ایسا ہوا تو ادریس کاندھلوی سینہ کھول کر سب سے پہلے گولی کھائے گا۔مسعود صاحب کہتے ہیں: میں اٹھا اور جاکے رپورٹ دی، جناب صدر میں پاکستان کے تھانوی فکر کے سب سے بڑے مولوی سے ملا ہوں تھانوی علماء کے بارے میں مشہور شعر ہے۔ بتائوں کیوں زباں پر حرف حق لانے سے ڈرتے ہیں مریدِ تھانوی ہیں اس لئے تھانے سے ڈرتے ہیں اس مسئلہ پر ان تھانویوں کا یہ حال ہے، سینے پہ گولی کھانے کی قسم کھا رہے ہیں تو مدنی علماء جن کا کام ہی حکومتوں کو ٹف ٹائم دینا ہے، ان کا مقابلہ کیسے کریں گے۔لہٰذا یہ منصوبہ ناقابل عمل ہے۔اللہ اکبر۔سلام ہو ان نفوس قدسیہ کو۔۔۔۔ صفحہ 487پر لکھتے ہیں:یہودی مٹھی بھر ہیں لیکن اتنے منظم ہیں کہ پوری دنیا سے منوایا ہوا ہے کہ ہولو کاسٹ کا تذکرہ نہ کریں کہ اس سے ان کو تکلیف ہوتی ہے‘ بالکل صحیح لیکن سوال تو یہ ہے کہ سوا ارب مسلمانوں پر مشتمل پچاس مسلم ممالک کب مغرب سے بات کریں گے؟ کب مغرب کو باور کرائیں گے کہ مسلمان عشق رسول ؐ میں انتہائی حساس ہیں اور وہ توہین رسالت کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ کب مسلم ممالک اپنے آقا نامدار ؐ کی حرمت کیلئے متحد ہو کر ان کو بتائیں گے کہ اگر آپ باز نہ آئے تو آپ کا سوشل کمرشل اور ٹریڈ بائیکاٹ کیا جائے گا۔اگر مسلم لیڈرز یہ کام نہیں کریں گے تو پھر دکھی دل کے ساتھ عرض ہے کہ معاملات عوام کے ہاتھ میں ہی جائیں گے۔کب تک مسلمان یہ بدتمیزی برداشت کریں گے؟ کب تک آخر‘ آخر کب تک؟ سید سلمان گیلانی خوش بخت ہے کہ ان کے روزشب اور ان کی آرزوئیں ہم آہنگ ہیں۔ان کی یادداشتیں نسل نو کے لیے ایک ذخیرہ ہیں ۔