صحافت اور خبر نگاری کی کتابوں میں خبر کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ خبر ہوتا ہے اور یہ تعریف جو لارڈ ناتھ کلف سے غلط طور پر موسوم کی گئی مگر ہرکس و ناکس کو یاد ہو گی کہ کتا آدمی کو کاٹ لے تو یہ معمول کا واقعہ ہونے کی وجہ سے خبر نہیں لیکن آدمی کتے کو کوٹ لے تو یہ خبر ہے۔ کوئی ذہین طالب علم پوچھ سکتا ہے کہ اگر عمران خان کو ان کا محبوب پالتو کتا جو سابق حکمران پرویز مشرف کا تحفۃً عطا کردہ ہے کسی روز انہیں کاٹ کھائے تو یہ خبر نہ ہو گی؟ استاد اگر حاضر دماغ اور خوش قسمتی سے صاحب مطالعہ بھی ہے تو اس کا جواب ہو گا: بیٹے بات یہ ہے کہ اہم شخصیات کے ساتھ ہونے والا معمولی یا معمول کا واقعہ بھی خبر ہے۔ مثلاً مسجدوں اور درگاہوں میں نمازیوں اور زائرین کے جوتے آئے دن چوری ہوتے رہتے ہیں اور ان کی کبھی خبر نہیں چھپتی لیکن سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان کے جوتے سیہون شریف کی درگاہ سے چرا لیے گئے تو اس کی خبر بن گئی۔ گویا عام آدمی پہ جو بھی گزرے جیسی بھی بری بھلی گزرے وہ میڈیا کی خبر کا موضوع نہیں ہوتا لیکن کسی سلیبریٹی کو زکام ہو جائے‘ وہ کسی پبلک مقام پر پھسل کر گر پڑے‘ وہ کسی سے بداخلاقی سے پیش آ جائے‘ وہ کسی کو مسکرا کر دیکھ لے یا کسی انسانی المیے پر اشکبار ہو جائے تو فوٹو گرافر اخبار کا اور چینل کے کیمرے اس کی تصویر کھٹ سے اتارنے کو بیتاب ہو جاتے ہیں۔ ذہین طالب علم اس پر ہاتھ کھڑا کر کے پوچھ بیٹھے: ایکسکیوزمی سر! یہ سلیبریٹی کو سلیبریٹی کون بناتا ہے؟‘‘ استاد چونک کر طالب علم کو دیکھے گا‘ ماتھے کا پسینہ پونچھے گا اور اگر استاد سوچتا‘ غور و فکر بھی کرنے کا اتفاق سے عادی ہے تو کہے گا: ’’یہ ہنڈرڈ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ آف کورس میڈیا۔ یہ میڈیا ہی ہے جو سلیبریٹی کو گوشئہ گمنامی سے نکال کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچاتا اور اسے سلیبرٹی بناتا ہے۔ یہ الگ بات کہ سلیبرٹی بننے کے بعد خود سلیبرٹی کو میڈیا سے شکایتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ شکایتیں بھی کیسی؟ میڈیا ہماری پرائیویسی میں مداخلت کرتا ہے۔ وہ بڑھا چڑھا کر بات کا بتنگڑ بناتا ہے۔ ہمارے بارے میں خبر چھاپنے سے پہلے تحقیق نہیں کرتا۔ہم کہتے کچھ ہیں‘ چھاپتا کچھ ہے۔ ہم سے کوئی غلطی کوئی گناہ معمولی سا بھی سرزد ہو جائے تو ہمارا میڈیا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے۔ میڈیا نے تو ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے‘‘ ’’سر!ذہین طالب علم ایک بار پھر ہاتھ اٹھا کر کچھ کہنے کی اجازت لے:’’شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میڈیا غیر اہم گمنام لوگوں کو روشنی میں لا کر اہم اور مشہور کرتا ہے اور جب وہ مشہور ہو جاتے ہیں نمایاں اور اہم ہو جاتے ہیں تو وہ ان کو ہر لمحے ہر آن مانیٹر کرنے لگتا ہے۔ آخر میڈیا کو یہ حق کس نے دیا ہے؟‘‘ ’’کسی نے بھی نہیں‘‘ استاد شانت لہجے میں کہے گا: ’’جب گمنام آدمی خواہ وہ سیاست دان ہو‘ کھلاڑی ہو‘فلم اسٹار ہو‘ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا یا پہنچا دیا جاتا ہے تو پھر وہ میڈیا کی ضرورت اس کی مجبوری بن جاتا ہے۔ کیوں کہ لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی دل چسپی لینے لگتے ہیں۔میڈیا اپنے پڑھنے اور دیکھنے والوں کی اس ضرورت‘ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ان مشہور شخصیات کو ان کی سرگرمیوں کو ہمہ وقت مانیٹر کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تک کسی بھی شعبہ زندگی کی شخصیت خواہ وہ سیاست ہو سپورٹس ہو یا شوبز ہو مشہور نہیں ہوتی‘ میڈیا ان کی ضرورت ہوتا ہے اور جب وہ مشہور ہو جائیں اہم ہو جائیں تو پھر وہ میڈیا کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ میڈیا آج کی دنیا کی طاقت ہے تم نے سرکس میں دیکھا ہو گا جہاں دو قسم کے آئینے تماشائیوں کی دلچسپی کے لیے آویزاں ہوتے ہیں۔ایک قد آدم آئینہ وہ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہو جائو تو تمہارا اصلی قد بھی گھٹ جاتا ہے اور تم ٹھگنے اور بالکل بونے نظر آنے لگتے ہو۔ دوسرا آئینہ ایسا کہ اس کے مقابل کھڑے ہو تو ایک طویل القامت آدمی کا عکس آئینے میں دکھائی دینے لگے گا اپنے آپ کو اتنا دراز قامت پا کر تمہارا سینہ خوشی سے پھول جائے گا۔ میڈیا کی مثال بھی ان دو قد آدم آئینوں جیسی ہے میڈیا بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا بنا سکتا ہے۔ اسی لیے سب میڈیا کی عزت کرتے ہیں‘ ڈر کر خوف کھا کر اس سے بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ ’’کیا اسی لیے سر!‘‘اب کے ایک درد مند طالبہ اٹھ کھڑی ہو اور پوچھے:’’ہر سال دنیا بھر میںرپورٹر اور صحافی حضرات مار دیے جاتے ہیں‘‘ استاد جلدی سے کہے گا:’’یہ الگ قصہ ہے یہ معاملہ بس کچھ ایسا ہے کہ میڈیا کا کام چھپے ہوئے پس پردہ حقائق کو منکشف کرنا انہیں سامنے لانا ہے۔ سماج دشمن عناصر مختلف قسم کے مافیاز‘ حکومت کے وزیر سفیر یا خود سربراہ مملکت جب مختلف قسم کی بدعنوانیوں اور بدمعاملگیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور ان کی ایسی سرگرمیوں کی بھنک جب میڈیا کے کارندوں‘رپورٹروں کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اس بدعنوانی‘ بدمعاملگی یا مافیاز‘ چھوٹے شہروں‘ گائوں دیہاتوں میں جاگیرداروں کے مظالم یا اداروں کی لوٹ کھسوٹ سے عوام کو دنیا کو باخبر کرتے ہیں تو وہ ایسے عناصر کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں تو اب دو ہی صورتیں ممکن ہوتی ہیں کہ ایسے صحافی اور رپورٹر کو ترغیب و تحریص سے خرید لیا جائے اس کے قلم اور کیمرے کو خاموش کر دیا جائے اور جب ایسا ممکن نہ ہو‘ صحافی یا رپورٹر بکنے سے خاموش رہنے سے انکار کر دے تو اسے رستے سے ہٹا دیا جائے کسی حادثاتی موت کا قتل کا یا اغوا یا قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ اس لیے صحافت یا رپورٹنگ ایک پرخطر پیشہ ہے۔ گویا جس کو ہو اپنی جاں عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟ قارئین کرام! یہ ساری مفروضہ قلم سوزی کا مقصد فقط اس قدر ہے کہ میڈیا جس کے اثر و نفوذ اور قوت و تاثیر کا دنیا بھر میں چرچا ہے‘ اس کی حقیقت اور اس کے عجز و مجبوری نیز گلیمر کو بے نقاب کر کے اصل صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔ مغرب میں میڈیا کے اثرات پر بہت تحقیق ہوئی ہے اور اس حوالے سے طرح طرح کے نظریات بھی وضع کیے گئے ہیں۔ ان کا مطالعہ کیا جائے تو بڑی دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ مثلاً ایک نظریے کے مطابق میڈیا کے پیغامات زود اثر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی پیغام اسی طرح وصول کنندہ کے اندر تیزی سے سرایت کر جاتا ہے جیسے بندوق کی گولی انسانی جسم میں پیوست ہو جاتی ہے۔ ایک اور نظریے کے مطابق میڈیا کے پیغامات کو جو خبروں اور سیاسی صورت حال کے تجزیوں کی صورت میں عوام تک پہنچتے ہیں ان کا کوئی گہرا اور دیرپا اثر نہیں ہوتا۔ میڈیا کی پالیسی خواہ کچھ بھی ہو۔ اس کے پیغامات کو لوگ اپنی پسند و ناپسند کے مطابق قبول یا رد کر دیتے ہیں۔ میڈیا اپنے پڑھنے ‘ سننے اور دیکھنے والوں کے نظریات اور ان کی وابستگیوں کو تبدیل نہیں کر سکتا ایک اور نظریے کے مطابق میڈیا کی طاقت اور اس کے اثرات کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ یہ میڈیا ہے جو لوگوں کو وہ ایشوز اور وہ مسائل جو خواہ اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن فضا میں اس طرح اچھال دیتا ہے کہ لوگ ان ہی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور وہی ایشوز اور وہی سٹنٹ روز مرہ کی گفتگوئوں کا موضوع بن جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے دیگر نظریات سے فقط اتنا پتا چلتا ہے کہ انسان اور انسانی معاشرہ ایک متغیر حقیقت ہیں۔ معاشرہ‘ لوگ ‘ سیاسی‘ اقتصادی اور عالمی صورت حال کے تبدیل ہوتے ہی میڈیا کے اثرات میں بھی نمایاں تبدیلی آ جاتی ہے میڈیا پر ہونے والی ہر تحقیق ایک خاص صورت حال میں کی گئی اور نتائج اسی صورت حال کے اثر کے ماتحت آئے۔ مثلاً میڈیا کے اثرات کو جب زود اثر بتایا گیا تو زمانہ جنگ کا تھا جب میڈیا کی اطلاعات اور پیغامات کی قبولیت کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا‘ جب میڈیا کے اثرات کو بے نتیجہ بتایا گیا اور کہا گیا کہ میڈیا اپنے پیغامات کے ذریعے پہلے سے موجود خیالات نظریات کو مستحکم تو کر سکتا ہے‘ تبدیل نہیں کر سکتا تو اس تحقیق کے وقت امریکہ میں انتخابات کا زمانہ تھا۔ اور یہ صورت حال آج بھی ہمارے ہاں کچھ ایسی ہی ہے کسی مقبول سیاسی جماعت کسی ہر دلعزیز لیڈر کے خلاف میڈیا میں خواہ کتنا ہی کچھ چھپتا رہے: نشر یا ٹیلی کاسٹ ہوتا رہے‘ عوام اس کا خاطر خواہ اثر نہیں لیتے اور اپنی پسندیدگی پر قائم رہتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ اس کا بھی تجزیہ کیا تو جا سکتا ہے لیکن آسانی اتنا ہی مان لینے میں ہے کہ انسان بھی ایک معما ہی ہے‘ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اور زندگی کیا ہے؟ اس بابت کیا کہیں کہ کب سمجھ میں آئی ہے یہ زندگی اور کب قابو میں آیا ہے انسان۔ ایسا ہو جاتا تو دنیا جنت نظیر نہ بن جاتی۔