جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے یہ تو خیر معرفت کی بات ہے یہاں تو انسان خدا بنے ہوئے ہیں’’ہن کہہ خوف بلاواں دا‘ سارا شہر خداواں دا‘‘ کشتی کنڈھے کہہ لگدی۔ نئیں سی موڈ ملاحواں دا۔کیا کریں یہی ہمارا المیہ ہے’’گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے۔۔ اگر یہ بستی دل والوں کی بستی ہے مگر دل اکیلا کہاں تک کام کرے۔ کیا کریں رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دشمن بھی خفا تیر کے گنہگار کے ساتھ۔ ہر کوئی پاور شو کے پیچھے لگا ہوا ہے مگر وہی کامیاب ہے جس کے شو کے پیچھے پاور۔بس یہ کوئی پہیلی بھی نہیں ایک عمل معکوس ہے۔ صورتحال اگرچہ گھمبیر ہے مگر ہے دلچسپ کہ اس وقت ن لیگ کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے یہ چیز خارجی بھی ہے اور داخلی بھی ہے ایک دسترخوان پر اتنی ساری پارٹیاں جمع ہیں مگر سٹیک ہولڈر تو تین ہیں آپ سمجھ ہی گئے ہونگے یہ اقتدار حصہ بقدر حصہ ہے مگر یہاں شاطر دماغ کی پاسدار ی ہے یا اوپر کے تجزیہ کاروں کی۔سچی بات یہی ہے کہ مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین ہے دونوں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں ن لیگ کے سامنے بڑی مشکل ہے کہ کانٹے چننے ہیں اور پھول بچھانے ہیں یہ تو خیر علامتی سی بات ہے۔ سرخی تو آج کے اخبار میں یہی ہے کہ عوام کے لئے ریلیف پیکیج کی تیاری کے احکامات پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم حکومت کو انگیج کر رکھا ہے۔ پہلے تو دوسری طرف سے دفاعی انداز اپنایا گیا مگر اب حکمت عملی جارحانہ ہو چکی ہے۔ابھی جو پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے یہ ناکافی ہے لوگ ان کے ساتھ اچھے خاصے ناراض ہیں مہنگائی کا گہرائو کسی طرح مندمل نہیں ہو رہا ایسے ہی ذھن میں شعر آ گیا: کیا بتائوں کہ زخم کس نے دیا مسکراتا رہا میں گھائو کے ساتھ کہنے کا مقصد کہ عمران خاں سے مایوس لوگ آنے والوں سے امیدیں باندھے ہوئے تھے مگر انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ لب پہ اوڑھے میں پیاس رہتا ہوں کیا سمندر کے پاس رہتا ہوں۔ حل نکالا ہے یہ اداسی کا اب مکمل ادا رہتا ہوں۔ دوسری طرف یہ بھی تو حقیقت ہے نہ ن لیگ کو معیشت میں کچھ کر کے دکھانا پڑے گا نواز شریف تو اکھاڑے سے باہر بیٹھے پہلوان کی طرح کشتی لڑنے والوں کو دائو پیچ بتا رہے ہیں حالات بدل چکے ہیں نواز شریف تو لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اتریں تو پتہ چلے۔ پل کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا ہے تاہم ن لیگ کے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں اور وقت بھی نہیںمگر وہ راستہ تلاش کرنے کے لئے وقت چاہتے ہیں جو عمران خاں انہیں نہیں دینا چاہتا منیر نیازی نے کہا: کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں تیرے لئے تونے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا دوسری طرف اگر آپ دیکھیں کہ عمران خاں بھی ساڑھے تین سال کے بعد بچا ہوا وقت ہی ثمر بار کرنا چاہتے تھے مگر انہیں ان کا اپنا وقت بھی نہیں دیا گیا۔دوسری طرف یہ بتا دیا گیا کہ اگر ووٹنگ مشین چل گئی تو اگلے پانچ سال آپ کے جیلوں میں گزریں گے اب ن لیگ والے کچھ وقت چاہتے ہیں کچھ منصوبے وغیرہ ہو جائیں۔ بس میں ایسے ہی اشارے کنائے میں بات کر سکا ہوں روزانہ کی بنیاد پر ان کی ویڈیوز ریلیز ہو رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر وائرل نہیں بلکہ ابلاغ نامہ انہی کو لے کر چل رہا ہے سوال یہ ہے کہ یہ خفیہ ویڈیوز بناتا کون تھا اس چیز نے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں وہی جو میر نے کہا تھا لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔اب تو دیواریں بھی سنتی ہیں اور دروازے بولتے ہیں۔یہ ہاتھ پائوں بولنے والی بات ہی ہے قباحت اگر جو بھی آتی ہے مگر حشر کا ایک نقشہ ادھر بھی ہے۔ عمران خاں پھٹ پڑے ہیں کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا تھا کہ ان کے مطابق وہ بالکل بے بس تھے تمام امور کے فیصلے جنرل باجوہ کرتے تھے کہ اس کو نکال دو اور اس کو لے آئو نیب بھی انہی کے انڈر تھی ۔ خان صاحب اپنی ناکامی آخر کس کے کاندھے پر ڈالیں چودھری شجاعت کی بات اچھی تھی کہ عمران خاں معیشت کو مسئلہ بناتے ۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خاں اب کون سا پتہ کھیلتے ہیں اب بلف نہیں چلے گی وہ لبرٹی اپنا پاور شو کر کے اسمبلیوں کی تحلیل پر بات کرنے جا رہے ہیں اس حوالے سے مونس الٰہی کی بات دل کو اپیل کرتی ہے کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد وہ بے اختیار سے ہو جائیں گے کچھ پراجیکٹ بھی زیر تکمیل ہیں چودھری برادران کہنہ مشق سیاستدان ہیں ہوا کا رخ دیکھ کر حالات بتا دیتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بے اختیار ہونا دشمن کو حملے کی دعوت دینا ہے۔ پرویز الٰہی بھی کام کرنے کے لئے کچھ وقت چاہتے ہیں۔ ایک کمی خان صاحب کے لئے کہ چودھری سرور جیسا جوڑ توڑ کرنے والا بھی نہیں عوامی طاقت ان کے پاس ہے مگر اگر منفی پراپیگنڈا نہ رکا یا یہ سچ نکل آیا تو بہت مشکل ہو گی ویسے پرویز الٰہی کا اگرچہ میں معترف ہوں مگر ان کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ شہباز شریف کی طرح لاہور کا بیڑا غرق نہیں کریں گے پرویز الٰہی کے کاموں کا بھی میں معترف ہوں اور اب اچھی توقعات رکھتا ہوں ابھی کل پرسوں ہی میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ادویات کی طرف توجہ دیں کہ بہت ساری دوائیں دستیاب ہی نہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بجائے آپ کم از کم پنجاب اور کے پی کے میں کام کر کے دکھائیں: اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا