متفق علیہ حدیث کا مہفوم ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔۔اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو دوسرے کا اس پر متاثر ہونا لازمی ہے۔ اگر حدیث کے ابلاغ میںکوئی سقم ہے تو پیشگی معذرت مگر یہ کہ اُمت مسلمہ کو دین کی رُو سے ایک ہونا چاہیے۔ دنیا کا تقریباً 25% حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 57 ملک ہیں مسلمان، مشرق وسطیٰ سے شمالی افریقہ تک۔۔ سنٹرل ایشیاء سے جنوبی ایشیاء تک۔ انہیں کون لیڈ کر رہا ہے؟ شاید سعودی عرب۔ ان سب کا جغرافیہ ، کلچر، اکانومی، حکومت، تعلیم اور نظریات اپنے اپنے ہیں۔ ان کے بلاکس بھی ہیں اور شدید اختلافات بھی، مگر مکہ اور مدینہ کی فضیلت اور دیگر عوامل کی وجہ سے ان کا لیڈر شاید سعودی عرب ہی ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات اور معیشت کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان تیزی سے سعودیہ کو گلوبل ٹریڈ کا حصہ بنانے کے لیے کیا کر ر ہے ہیں؟ سب سے پہلے تو آل سعود اس فلسفے کو دھیما کرنے جارہی ہے جو اُن کی ریاست اور حکومت کی بنیادی ڈاکٹرائن تھا ۔ چند دن پہلے بھارت کے فنکاروں کا ایک کامیاب شو Kingdom میں ہوا۔ اس نے عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوم مچادی۔ سعودیہ میںعورتوں کو لبرل انداز میں عملی زندگی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈرائیورنگ کی اجازت تو صرف ایک Tip of the Iceberg ہے۔ حجاب اور برقعہ پر بھی نظرثانی پائپ لائن میں ہے۔ وہاں ریاست اور معاشرہ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ وہ دنیا بھر میں مساجد کی فنڈنگ کو کم سے کم کرنے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ اسلحہ صرف امریکہ سے خریدتا تھا مگر اپنی سیکورٹی میں جدت کے لئے فرانس اور روس کے اسلحہ سازوں کے ساتھ جدید میزائل اور سیکورٹی سسٹم کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ریاض کے صدیوں پرانے اختلافات ہیں ایران ، قطر اور یمن سے ۔ اُنہیں ری ڈیزائن کیاجا رہا ہے۔ وہ 400 ارب ڈالر کا ایک پراجیکٹ سمندر کنارے لانچ کررہا ہے۔ وہ عالمی معیشت کے 25% کا ساجھے دار بننا چاہتا ہے۔ فنانس، ٹوراِزم، بینکنگ اور بہت کچھ۔۔۔ اسکا سائز 23 ٹریلین ڈالر تک جا سکتا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اکثر جیو اکنامکس کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی اور معاشی خطوط کو ری ڈیزائن کیا جائے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں ماضی کے نفسیاتی تعصبات اور تاریخی جذبات کو نئی شکل دے کر نئی جیو سٹرٹیجی بنائی جائے۔ کچھ ایشوز پر ہم سب پاکستانی بہت حساس ہیں۔ ماضی کی قید میں ہیں۔ جب بھی اُن ایشوز پر بات ہوتی ہے ایک ہنگامہ اور طوفان برپا ہو جاتاہے۔ اُ ن میں سے ایک مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنا بھی ہے۔ ہم مشرق کی جانب سے بھی دبائو میں ہیں اور مغرب کی جانب سے بھی ۔ پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر ہم نے اپنا رویہ ترک نہ کیا تو ہماری عالمی تنہائی ہمیں بہت دور تک لے جائے گی۔ اسلام آباد میںجو مسلمان ممالک کی تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے وہ پاکستان کی ایک کاوش ہے، کوشش بھی کہ افغانستان جس عظیم المیے سے دوچار ہونے جا رہا ہے اس پر پاکستان کا بیانیہ پیش کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اگر افغانستان قحط اور بدحالی کے ہاتھوں برباد ہوتا ہے تو اس کے اثرات صرف پاکستان تک محدود نہ رہیں گے۔ مگر بیش تر مسلمان ممالک اور مغرب بھی یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان حکومت کو اپنی پالیسیوں اور حکومت کی آئوٹ لُک پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اس پر افغان حکومت تیار نہیں۔ اس لیے کوئی بھی مسلمان ملک اُسے تسلیم نہیںکر رہا۔ پاکستان اکیلا تسلیم کرلے تو اس کی عالمی تنہائی بڑھ جائے گی کہ امریکہ پہلے ہی افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ جو کر رہا ہے وہ کس کے ایماء پر ہو رہا ہے؟ پاکستان گرے لسٹ سے کیوں نہیںنکل پا رہا ؟ پاکستان کے اندر TTP سے TLP تک کیا Reflect کرتی ہیں؟ یاد رہے کہ وسطی ایشیاء کو جانے کا راستہ گوادر سے ہو کر گزرتا ہے۔ بلوچستان میںہم چین کے ساتھ مل کر سی پیک کے مطابق جو کرنے جارہے تھے وہ سب ڈسٹرب ہو رہا ہے۔ پنڈت کے مطابق چین اور امریکہ کی پراکسی وار بلوچستان میں شروع ہوگئی ہے۔ بلوچی کیوں ناراض ہیں؟ ہم نے روس کے خلاف جو جنگ 80 کی دہائی میں امریکہ کے مطابق لڑی وہ 90 سے گزر کر 2021 ء میں پہنچ کر کیسے انڈے اور بچے دے چکی ہے؟ ہم سب کو نہیں تو بیش تر کو ناراض کر چکے ہیں۔ اس سب کی ہم نے کیا قیمت ادا کی اور مستقبل میں کیا ادا کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں تعلیم ، سرمایہ کاری ، صحت اور خط ِ غربت کا کیا معیار ہے؟ افراطِ زر، مہنگائی اور عام آدمی کدھر جارہے ہیں؟ ضرورت ہے ہماری اشرافیہ کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی۔ نظریاتی تعصبات، نفسیاتی قید اور جذباتی نعروں سے رہائی کی۔ کتنی عجیب بات ہے57 ملکوں پر مشتمل ملکوں کا اتحاد ِ امت پارہ پارہ ہے ۔ اپنی اپنی اکانومی۔۔۔ اپنا اپنا خط ِ غربت، اپنا اپنا طرز حکومت، شرح خواندگی۔۔۔ بے روزگاری اور جہالت بھی اپنی اپنی ۔ مشترک کیا ہے؟ صرف مذہب۔ وہی مذہب کہہ رہا ہے کہ تم ایک جسم کی مانند ہو۔ مگر تمام امت کا جغرافیائی سرحدوں کا اپنا تصور ہے۔ مغربی تصور۔ جسے ویسٹ ۔۔ نیشن سٹیٹ کہتا ہے۔ اس تضاد کو جتنا جلد کوئی ریاست خاص طور پر مسلم ریاست بھانپ لے گی ، فلاح پاجائے گی۔ ایک طرف آسمان کی طرف قلانچیں بھرتا ہوا سعودی عرب اور دوسری جانب ایک انچ کی بھی جنبش سے انکاری افغان طالبان اور تیسری طرف ہم۔۔۔پاکستان۔ چوائس پاکستانی قوم اور اس کی اشرافیہ کے پاس ہے۔ ہم سب کی تربیت کا اعجاز ہے۔ اُن کے بھی صنم خانے ہیں اور ہمارے بھی صنم خانے ہیں ۔ جواب پاکستانی قوم کے پاس ہے۔