حضرت عبدالکریم آغا شورش کاشمیری بر صغیر کی آزادی میں حصہ لینے والے حریت فکر کے مجاہدین کے قافلہ کے سالار ہیں وہ شورش کاشمیری کہ جس نے انگریزوں کے دور حکومت کے پورے جاہ جلال میں دس سال سے زائد عرصہ تک پوری استقامت اور جرأت کے ساتھ جیل کاٹی اورپھر امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی صحبت میں فن خطابت کے جانباز بن کر نکلے وہ شورش کہ جو 1935ء میں مسجد شہید گنج کے مسئلہ پر پہلی مرتبہ بادشاہی مسجد لاہور میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قید بند کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جو 1935ء سے لے کر 1970ء تک جاری رہا کبھی یہ جیل کے اندر اور کبھی جیل سے باہر ۔ حضرت اقبال نے ایسے تو نہیں کہا تھا کہ : وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا حضرت شورش کاشمیری کی سیاسی ، دینی زندگی کا آغاز اور انجام لاہور سے ہی ہوتا ہے کون جانتا تھا کہ ایک انتہائی سفید پوش خاندان میں محمد نظام دین کا شمیری کے ہاں پیدا ہونے والا عبدالکریم مستقبل کا ایسا نامور خطیب اور صحافی بنے گا کہ جس کی للکار سے طاغوتی طاقتوں کا جگر پاش پاش ہو جائے گا ۔شورش کاشمیری ہمارے ملک کے نہیں بلکہ برصغیر کے ایک ایسے قلم کار ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اُردو ادب میں تین ہزار سے زائد نئی ترکیبیں متعارف کرائی ہیں اور جن کی ایک للکار سے حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں لیکن افسوس کہ اب تو نہ وہ صحافی رہے اور نہ وہ خطیب رہے ۔ لیکن وہ مرد درویش ساری زندگی حق گوئی میں ایسا کھو یا کہ جس نے اُردو ادب میں اپنا نام پید اکرنے کی بجائے اس قوم میں جذبہ عشق رسول ﷺ زندہ کیے رکھا ۔حضرت غازی علم الدین شہید ؒنے جس روز راجپال شاتم رسول کو قتل کیا اور پھر خود جا کر مصری شاہ تھانے میں اپنی گرفتاری پیش کی تو شورش کاشمیری اِس واقعہ کے عینی شاہد تھے اُن کے دل میں بھی عشق رسول ﷺ کی چنگاری اُس دن سے پیدا ہو گئی تھی کہ جس دن حضرت غازی علم الدین شہید ؒ نے راجپال کو جہنم واصل کیا تھا اور پھر حضرت علامہ اقبال ؒ کی صحبت نے اُن کو عشق رسول ﷺ کی منزلیںطے کرائی تھیں ۔ شورش کاشمیری کی زندگی کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ بندہ ایک ہی کالم میں اُن کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔کبھی بابائے صحافت حضرت مولانا ظفر علی خان کے ساتھ مسجد شہید گنج کے مسئلہ پر اُن کے دست بازو بنے ہوئے ہیں کبھی یہ مجاہد ختم نبوت بن کر قادنیوں کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں ۔راولپنڈی میں مولانا غلام اللہ خان کی راجہ بازار میں واقع وہ تاریخی مسجد آج تک موجود ہے کہ جہاں پر آغا صاحب نے تحریک ختم نبوت کی خاطر درجنوں مرتبہ خطاب کیا تھا ۔ اِس تاریخی مسجد میں آغا شورش کاشمیری نے مولانا غلام اللہ خان ، مولانا عنایت شاہ گبرا تی مجاہد اول کشمیر سردار عبدالقیوم خان کی موجودگی میں ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے چہیتے گورنر مصطفی کھر کوللکار اتھا اور پھر بھٹو سے مخاطب ہو کر یہ تاریخی جملے کہہ تھے ۔ ’’کہ مسٹر بھٹو مرزا بشیر الدین قادیانی میرے آقا حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہیں میں تجھے خاتون جنت پاک بی بی بتول حضرت فاطمہ ؓ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اِن کو اقلیت قرار دو ‘‘ پھر اِس کے بعد وہی ہوا کہ جو پوری قوم نے دیکھا کہ 7 ستمبر 1974 ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے ذریعے اِس فرقہ کو حضور اقدس ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرنے پرا قلیت قرار دیا تھا اور پھر اُس دن آغا شورش کاشمیری نے اپنے ’’ ہفت روزہ چٹان ‘‘ میں یہ سرخی جمائی تھی کہ بھٹو نے آج جنت کا ٹکٹ خرید لیا یہ تھا شورش کاشمیری کہ جس نے اپنے اُستاد حضرت عطاء اللہ شاہ ؒ بخاری کی وفات پر ملتان میں قلعہ قاسم باغ پر اُن کی یاد میں تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج مجلس احرار ختم ہو گئی اس لیے کہ آج ہمارا روحانی باپ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اِس دنیا سے چلے گئے ۔لیکن شاہ صاحب نے جو ساری زندگی ہمیں درس حریت فکر دیا وہ اب قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، مولانا محمد علی جالندھری اور میر ی صورت میں طاغوتی طاقتوں کا تعاقب جاری رکھے گا اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ حضرت شورش کاشمیری نے ختم نبوت کا جھنڈا کس طرح سے اُٹھائے رکھا ۔ 25 اکتوبر کو اُن کی 48 ویں برسی لاہور میں منائی گئی کیونکہ حریت فکر کا یہ مجاہد 25 اکتوبر 1975 ء کو اِس جہان فانی سے کوچ کر گیا تھا میں اُن کی یاد میں لاہور آیا تو اُن کے فرزند آغا مبشر شورش کا شمیری سے شرف ملاقات ہوا جو ایک طویل عرصہ کے بعد امریکہ سے لاہور آئے ہیں اور صرف اس لیے کہ میانی صاحب میں اُن کے عظیم والد اور والدہ آسودہ خاک ہیں اِس برسی کے موقع پر آغا صاحب کے بڑے بیٹے آغا مشہود شورش سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ کیونکہ وہ اپنے بیٹے علی بن عثمان کو ملنے کے لیے لندن گئے ہوئے تھے ۔لیکن آغا مبشر شورش کی خوب صورت گفتگو نے حضرت آغا شورش کی یادوں کا دبستان کھول دیا آغا مبشر بتا رہے تھے کہ آغا صاحب کی زندگی کے آخری تمام جلسوں میں وہ اُن کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔سب سے چھوٹا بیٹا ہونے کے ناطے وہ مجھے ساتھ لے جایاکرتے تھے جس دن لاہور میں موچی دروازہ سے لے کر پورے لاہور میں کارواں شوکت اسلام کا جلوس مولانا مودودی ، سردار عبدالقیوم خان اور والد گرامی کی قیادت میں نکا لا گیا تو میں بھی اُس ٹرک پر سوار تھا وہ کہنے لگے نہ اب وہ زمانہ رہا اور نہ اب وہ قوم کا جذبہ رہا اور نہ اب وہ عظیم لوگ رہے کہ جن کی ایک للکار پر حکومتیں تبدیل ہو جایا کرتی تھیں ۔