ویسے تو اس ملک میں 90فیصد سرکاری ملازمین کسی نہ کسی ذریعے سے کرپشن میں ملوث ہیں، لیکن پکڑا وہ جاتا ہے جس کی فائل کھلتی ہے، یا جو اپنے بڑوں کے ساتھ سینگ پھنسا لیتا ہے۔ تبھی عالمی رینکنگ میں ہمارے سرکاری ادارے کم و بیش آخری دس نمبروں میں آتے ہیں۔ ویسے تو ان سرکاری افسران کو سینگ نہیں پھنسانے چاہئیں کیوں کہ جب آپ آئوٹ آف دی وے سہولت لیتے ہیں تو پھر ذہنی طور پر تیار بھی رہنا چاہیے کہ افسران بالا کسی بھی قسم کا تقاضا آپ سے کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ ایمانداری سے کام کر رہے ہیں تو کوئی بھی شخص کسی دونمبر کام یا رشوت دینے کے لیے آپ سے رابطہ بھی نہیں کرتا۔ پھر بھی اگر آپ کو دبائو کا نشانہ بنایا جائے اور زبردستی کسی کام کو کرنے کے حوالے سے زور دیا جائے تو یقینا یا تو آپ خودکشی کر لیتے ہیں، یا آپ استعفیٰ دے کر گھر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا بہت کم کیسز میں ہوتا ہے کہ ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر استعفیٰ دیا جائے۔ یہاں تو کرسی کے ساتھ چپکے رہنے کا رواج ہے۔ جیسے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشین کے صدر عارف حسن 19سال تک اپنی کرسی سے چپکے رہے۔ اور آخر میں انہوں نے صدارت اس لیے نہیں چھوڑی کہ اُن کے دور میں پاکستان ایک سنگل گولڈ میڈل بھی نہیں جیت سکا بلکہ ابھی بھی انہوں نے صحت کی خرابی کی وجہ بتائی۔ خیر یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے لیکن خود احتسابی کے لیے سب سے پہلا کام یہی ہونا چاہیے کہ آپ کا ضمیر زندہ ہو! بہرحال یہی صورت حال آج کل ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی ہے، جہاں گزشتہ دو دنوں میں دو سینئر جج صاحبان نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وجوہات جو بھی بتائی گئی ہوں مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہاں حالات اچھے نہیں ہے۔ دھڑے بازی، گروپنگ اور نہ جانے کیا کیا افواہیں پھیل رہی ہیں کہ یہاں میں لکھنے سے قاصر ہوں ۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ان جج صاحبان کی سروسز اور ان کے مشہور مقدمات پر سرسری سی نظر ڈالتے ہیں کہ جسٹس نقوی 16 مارچ 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بنے۔انہوں نے اپنے وکالت کے کیریئر میں ایک ہزار سے زائد مقدمات میں وکالت کی ہے اور ان کے کئی مقدمات کے فیصلے رپورٹ بھی ہوئے۔ 12 جنوری 2020 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جب خصوصی عدالت جنرل مشرف کو سزائے موت سنا چکی تھی۔ 10 اپریل 2018 کو جسٹس نقوی لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ کے حصہ تھے جس نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف مبینہ تقاریر پر پیمرا کو نوٹس جاری کئے تھے۔ اس سماعت کے دوران میاں نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر اور جسٹس نقوی کے درمیان، جسٹس عاطر محمود کی بینچ میں شمولیت کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی تھی کیونکہ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ جسٹس عاطر محمود اس سے قبل تحریک انصاف لائرز فورم کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ 16 اپریل کو اس بینچ نے پیمرا کو نواز شریف، مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر نہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔پھر 10 ستمبر 2018 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جسٹس نقوی کی سربراہی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ مستعفی ہونے والے دوسرے معزز جج جسٹس اعجاز الاحسن 28جون 2016کو سپریم کورٹ کے جج بنے، انہوں نے اپنے دور میں پاناما پیپرز کیس سمیت اہم ترین کیسز سنے۔ وہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بہت زیادہ قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے، اُن کے دور میں جسٹس اعجاز الاحسن ہر اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس وقت بھی بینچوں کی کمپوزیشن میں ججوں کی شمولیت کے حوالے سے متعدد خط لکھے تھے کہ دیگر ججوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔لیکن ثاقب نثار اُن پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ فروری 2023 میں اس وقت کے وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پرالزامات عائد کیے تھے کہ وہ نواز لیگ کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نوازلیگ کی قیادت کے حوالے سے مقدمات سے انہیں دور رکھا جائے۔ تاہم ان تحفظات کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو کبھی ان بنچوں سے الگ نہیں رکھا۔ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سوموٹو لیے تھے۔اس وقت کے وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نگراں جج کے طور پر پارٹی قائد نوازشریف کے خلاف کیس کی نگرانی کرتے رہے اور ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ بہرحال سنا ہے ان کے خلاف دو ریفرنسز تیار ہورہے تھے، تبھی انہوں نے استعفیٰ دیا ہے جبکہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس چل رہا ہے ، جس کی تازہ اطلاعات کے مطابق 15فروری تک کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے ماضی کی بات کریں تو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے ذریعے سپریم کورٹ کے کسی جج کی برطرفی کی مثال نہیں ملتی جبکہ ہائی کورٹ ججز میں سے بھی صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ ان کے علاوہ، جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس فرخ عرفان نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے یا ریفرنس دائر ہونے پر استعفے دے دیے تھے۔ بہرکیف جو بھی ہے، اس وقت بڑی بڑی خبریں ملک کی بڑی عدالت سے سامنے آرہی ہیں، مشرف کی پھانسی کی بحالی بھی اسی میں شامل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ الیکشن سے چند روز قبل ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحب پر کرپشن کے الزامات لگنا بالکل مختلف بات ہے ،یا ایسے الزامات نہیں لگنے چاہئیں۔جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ سرکار کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد اس میں ملوث ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کب اور کس کی فائل اُوپر آجائے ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ الیکشن سے قبل ایسا ماحول بنانے کی آخر وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ جن جن جج صاحبان نے استعفے دیے ہیں، ن لیگ اُن کے خلاف اپنے جلسے جلوسوں میں بہت زیادہ نام لیا کرتی تھی اور دھمکیاں بھی دیتی رہی۔ لیکن ملک میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ مزید زور پکڑ رہا ہے۔ ہر ادارے میں گروپنگ اور پولرائزیشن بڑھ رہی ہے، جس کانقصان ultimately یہاں کے عوام کو ہو رہا ہے، جس کی شاید کسی کو فکر نہیں !