ہمارے ہاں انفرادی اور قومی سطح پر اپنی ناکامیوں اور بربادیوں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کا رجحان اسقدر گہرائی حاصل کر چکا ہے کہ الامان الحفیظ! یہ رجحان ہمارے قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ہمارے صحافتی دانشور مخصوص ایجنڈے یا اپنی ناقص ذہنی استعداد اور ذاتی مفادات کے تابع ایسی ایسی سازشی تھیوریاں اور بلیم گیمز کے حاشیے تراشتے ہیں کہ جس کی کسی دوسرے مہذب معاشرے میں مثال ملنا نا ممکن ہے ۔جب سے وطن عزیز معرض وجود میں آیا ہے ہم امریکہ اور مغربی ممالک سے اربوں ڈالرز کے قرضہ جات اور گرانٹس لے چکے ہیں صرف امریکہ ہمیں گرانٹس کی مد میں 71 ارب ڈالرز دے چکا ہے مگر ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ بجائے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، ہم پاکستان میں تمام تر سیاسی انتشار، غربت، استحصال اور انتہا پسندی کا ذمہ دار امریکہ، مغربی ممالک اور تین ہمسایہ ممالک کو قرار دیتے ہیں ہماری اس افلاس زدہ قومی سوچ نے ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ہم گزشتہ چالیس سال سے سٹریٹجک ڈیپتھ کے نام پر افغانستان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہر جتن کرتے رہے اور کبھی ہم افغانی جنگجوؤں کو مجاہدین اور کبھی دہشت گرد اور کبھی اچھے برے افغان کے خود ساختہ تصور پرستی سے ہماری رومانویت اسقدر زیادہ تھی کہ ہم ہمیشہ حقائق سے نظر یں چراتے رہے اور مخالفانہ نقطہ نظر کو سننا بھی گناہ کبیرہ خیال کرتے رہے اور بزعم خویش خوش گمانی کی منازل کے حصول میں ہم آج تک کولہو کے بیل کی طرح چکر در چکر ایک ہی جگہ پر گھومتے پھرتے ہیں کیا ہمیں امریکہ نے کہا کہ ہم چین کے 50 ارب ڈالرز کے مقروض بن جائیں کیا ہمیں غیر ممالک سبق دیتے ہیں کبھی نواز شریف اور کبھی عمران خان کو ہیرو اور بعد میں ولن بنائیں ۔ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ چاہے مشرقی پاکستان الگ ہو، چاہے ہندوستان کے ساتھ جنگیں ہوں اور اقتدار کی میوزک چیرز اور معیشت کی تباہی اور دہشت کو فروغ ہو مجال ہے کہ ہم اپنے ممدوحین سے کہیں کہ وہ اپنے اپنے حصے کی ان غلطیوں کو تسلیم کر لیں جن کی وجہ سے ہم اس حال میں پہنچے ہیں آپ لاکھ دوسروں پر بلیم لگائیں مگر تسلیم کر نا ہو گا میں خود تھا اپنی جان کے پیچھے پڑا ہوا میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا ہمارے ہاں اکثر لوگوں کی زبان پر ہوتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ نے انتہا پسندی اور سیاسی انتشار کو فروغ دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ عظیم کے بعد امریکی امداد نے مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی تعمیر ترقی، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا مگر ایسا کیا ہے ہمارے ہاں امریکی امداد نے ایسا بھرپور کردار ادا نہیں کیا ۔اسکی وجہ ہماری ترجیحات تھیں ہم نے امریکی امداد کو سیکورٹی سٹیٹ اور اقتدار پر قبضے کے لیے استعمال کیا حالانکہ اسکو ہمیں سول ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم پر خرچ کرکے انسانی سرمایہ کاری تشکیل پر خرچ کرتے تو شاید ہم بھی معاشی طور پر ایشیائی ٹائیگرز کی صف میں ہوتے جہاں امریکہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں کمیونزم کے فروغ کو روکنے کے لیے غیر سیاسی سٹیٹ ایکٹرز کی سرپرستی کی اور جنگی ہتھیاروں کی مارکیٹ قائم کرنے کے لیے جنگوں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہیں گندم کے بیج اور کھادیں ایجاد کر کے دنیا میں سبز انقلاب کی راہ ہموار کی اگر پاکستان گندم کا امریکی بیج نہ استعمال کرتا تو ہم شدید غذائی قلت کا شکار ہو جاتے امریکہ نے دنیا کو سا ئنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے جدید علوم سے آشنا کر کے صحت، تعلیم، کمیونیکیشن، توانائی آرکٹیک سمیت زندگی کے ہر شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں سے بنی نوع انسان کو بے حد فائدہ پہنچایا امریکی سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی نے چین، جاپان، کوریا، تا ئیوان کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی معیشتوں کو ترقی یافتہ بنانے میں مدد دی جبکہ بدقسمتی سے مسلمان ممالک نے امریکہ سے اسلحہ اور سامان تعیش تو خریدا مگر جدید علم وہنر سے لاعلمی کے باعث 57 اسلامی ممالک ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہی چین اور جاپان جو امریکی اور برطانوی سامراج سے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر آزادی حاصل کرتے ہیں مگر پھر ایک وقت آتا ہے کہ امریکی سرمایے اور صنعتوں کو اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کی سہولت دیتے ہیں اور اپنے سرپلس زرمبادلہ سے امریکہ میں اثاثے اور سیکیورٹیز خرید کر اس کو کولونائز کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ہم نے کیا کیا امریکہ اور یورپ سے جنگی سامان اور سامان تعیش سے درآمدات کو بڑھایا جبکہ ہم نے ان سے ٹیکنالوجی حاصل کر کے اسکو مقامی ضرورتوں کے مطابق نہ ڈھالا۔ امریکی ہتھیار آؤٹ ڈیٹ ہو گئے اور تجارتی توازن خسارے کا شکار ہو کر ہمیں قرضوں کے اس منحوس چکر میں لے آیا ہے کہ نہ تو معیشت مضبوط ہوئی اور نہ ہی دفاعی صلاحیت میں اتنی استعداد پیدا ہو ئی کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور بیرونی دشمن ہمیں کھا جانے والے نظروں سے نہ دیکھیں۔اگر چہ ہمیں امریکہ کے استحصالی کردار سے نفرت ہے مگر جدید ٹیکنالوجی اور علم وہنر کے بغیر ہم کیسے معاشی خود انحصاری کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں اقبال اور جمال دین افغانی کا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، کا تصور ؎ مسلمان ممالک کی فلسطین کے معاملے میں بے حسی اور عملیت پسندی اور اپنے اپنے سیاسی اور معاشی حقائق سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ہے ہم ابھی کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے ٹنل وژن کو چھوڑ نے پر تیار نہیں ہمارے فرسودہ ادارتی، گروہی، اور مافوق الفطرت سیاسی، معاشی اور معاشرتی تعبیروں نے ہمیں آزادی کے بعد غلامی سے بھی بدتر حالات کا شکار کردیا ہے۔ جدیدیت سے دور قبائلی سوچ و فکر کے حامل معاشرے میں انسانی حقوق، سماجی انصاف، آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کے خواب دیکھنا ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر تضادات کے بھرے معاشرے میں ایک بھی حسین نہیں تو کہاں سے آئے گی صدا ے لاالہ…