انتخابات کے انعقاد سے قبل صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد پر سوالات کا سلسلہ ہو چکا ہے، سیاسی حلقوں کے اس ضمن میں دلائل اور تاویلوں کا میڈیا پر خوب چرچا ہے لیکن انتخابات جو آئین کے مطابق 90 روز میں انعقاد پذیر ہونے ضروری تھے، اس قدر تاخیر کے بعد ایک اچھی خبر تو بہرحال آئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر آئندہ عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق عام انتخابات کے لیے پولنگ 8 فروری 2024 کو ہی ہوگی، الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی 19 دسمبر سے حاصل کیے جاسکیں گے اور کاغذات نامزدگی 20 سے 22 دسمبر تک جمع کرائے جاسکیں گے، امیدواروں کی انتخابی فہرست 23 دسمبر کو آویزاں کی جائیگی جبکہ امیدواروں کی اسکروٹنی 24 سے 30 دسمبر تک کی جائیگی، کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے پر 3 جنوری تک اپیل دائر کی جاسکے گی، امیدواروں کی حتمی فہرست 11جنوری 2024 کو جاری کی جائے گی، کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ 12 جنوری 2024 ہے، امیدواروں کو انتخابی نشان 13 جنوری 2024 کو جاری کیے جائیں گے۔ 10 جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہوگا، گویا عام انتخابات کی راہ میں انتخابی شیڈول کے حوالے سے جو چہ مہ گوئیاں جاری تھیں، وہ بھی اپنے منتطقی انجام کو پہنچ چکی ہیں تاہم تحریک انصاف کو تاوقت اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ بیوروکریسی کے آفیسرز کو ریٹرنگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران تعینات کیا جائے گا، پی ٹی آئی کو اعتراض ہے کہ بیشتر مقامات پر 3 ایم پی او کے تحت اس کے عہدیداران اور کارکنوں کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کرنے والے افسران کی نگرانی میں کیسے صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقنی بنایا جاسکتا ہے؟ پی ٹی آئی کا ایسا موقف درست ہے یا نہیں؟ یہ بات اہم ہے، تاحال مختلف مقامات پر افسران کے نگران حکومت کے قیام کے بعد بھی تبادلے نہیں کیے جاسکے، جس پر کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اپنے آئینی اور قانونی حق کو استعمال تو کیا جاسکتا ہے مگر لاہور ہائیکورٹ میں اس تناظر میں پی ٹی آئی کی رٹ پٹیشن پر جسٹس علی باقر نجفی کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ آنے کے بعد سارا ڈراپ سین سامنے آچکا ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے آخر کار انتخابی شیڈول بھی جاری کردیا ہے لیکن پی ٹی آئی کا جوڈیشل آفیسرز کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بدستور موجود ہے، اس تناظر می اسلام آباد کی بیوروکریسی کے اعلی افسران کو بطور خاص مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کہنے کے باوجود ان کے تبادلے نہیں کیے جارہے، بہرکیف نگران حکومت کی غیر جانبداری پر پیپلز پارٹی کو بھی شدید تحفظات ہیں، اس سلسلہ میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے استعفیٰ کی خبر بطور خاص سامنے آئی ہے حالانکہ بلوچستان سے نگران وزیر کھیل کا استعفیٰ بھی سامنے آچکا ہے، آئین کے مطابق نگران حکومت کے وزراء انتخابی شیڈول سے پہلے مستعفی ہو کر انتخابی عمل کا حصہ بن سکتے مگر اس ضمن میں نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوالات تو اٹھتے ہیں اور ان میں وزن بھی ہے، نگران وزیر داخلہ کے طور پر سرفراز بگٹی سے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو شدید اعتراضات تھے، جبکہ اس خبر کی تصدیق ہوچکی کہ نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی جانب سے استعفیٰ 13 دسمبر کو دیا گیا تھا، ان کا مسلم لیگ ن میں شمولیت کا امکان ہے، نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے سرفراز بگٹی کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا ہے، یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ الیکشن سے پہلے نگراں کابینہ سے مزید استعفوں کا بھی امکان ہے، آئندہ الیکشن میں اہل ہونے کیلئے نگراں کابینہ سے استعفے دیئے جا سکتے ہیں، ن لیگ کے دانیال چوہدری کا کہنا ہے کہ سرفراز بگٹی کی ن لیگ اور پی پی کیساتھ بات چل رہی تھی، سرفرازبگٹی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے، لہذا کوئی بھی سیاسی جماعت اعتراض تو اٹھا سکتی ہے کہ بطور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی غیر جانبدار نہیں تھے، وطن عزیز میں حالیہ انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہونگے، اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی و اقتصادی عدم استحکام ہے، مادر وطن میں غربت کی شرح میں بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے، مہنگائی کی شرح روزانہ کی بنیادوں پر بڑھ رہی ہے، حال ہی میں ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں کی پیداوار سے متعلق جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، انکے کے مطابق ماہ اکتوبر میں سالانہ بنیادوں پر بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 4.8 فیصد کمی سامنے آئی ہے، ستمبر کے مقابلے اکتوبر میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 2 فیصد کمی جبکہ جولائی تا اکتوبر 2023 بڑی صنعتوں کی پیداوار 0.44 فیصد کم ہوئی، جولائی تا اکتوبر فرنیچر کے شعبے کی پیداوار میں60.27 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ کی گئی اور آٹو موبائل کی پیداوار میں 48.94 فیصد کمی ہوئی، ٹیکسٹائل شعبے کی پیداوار میں 15.47 فیصد کمپیوٹر الیکٹرانکس، آپٹیکل پراڈکٹس کی پیداوار میں 25.11 فیصد کی کمی واقع ہوئی، الیکڑیکل آلات 13.29، آئرن، اسٹیل مصنوعات کی پیداوار 2.4 فیصد کم ہوئی، معاشی و اقتصادی بحرانوں کے خاتمے کیلئے منتخب حکومت کا قیام بنیادی تقاضا ہے تاکہ سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے راہ ہموار ہوسکے، مبصرین کی رائے میں انتخابات اور اس کی شفافیت انتہائی اہم ہے، چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل ہے لیکن زمینی حقائق چنداں مختلف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی تمام تلخیوں اور خلفشار کو پس پشت ڈالتے ہوئے مستقبل پر نظر رکھی جائے تاکہ ملک و ملت کو طویل مدت سے رواں دواں بحران سے باہر نکالا جائے، اس مقصد کیلئے آئین و قانون کی حاکمیت کو تمام سیاسی فریقین کو ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں تسلیم کرنا ہوگا اور یاد رکھنا ہوگا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوا کرتی۔ آج کا سیاسی فاتح کل کا شکست خوردہ بھی ہوسکتا ہے اور آج کا شکست خوردہ کل کا فاتح بھی ہوسکتا ہے، بس آئین و قانون کے تابع جمہوریت پر یقین محکم رکھنا ضروری ہے، باقی سب کھیل تماشے ہیں۔ ٭٭٭٭