بس ایک کسر باقی رہ گئی تھی، سو وہ بھی پوری کر دی گئی، انسانی فطرت ہے، نظر انداز کیے جانے کا احساس انسان کو انسان سے دور کر دیتا ہے، یہی کشمکش موجودہ حکومت اور عوام کے بیچ جاری ہے، کون ہوگا جو اس تلخ حقیقت سے انکار کرے، جو انکاری ہیں، انکا معاملہ بہت مختلف ہے، ضد،انا آڑے آتی ہے یا مفادات! اسکے علاوہ کچھ ہو تو بیان کر دیجیے، کسی حد تک پی ٹی آئی کے حامیوں میں بھی ایسے لوگ شامل ہیں مگر اب کی بار اکثریت عام آدمی کی ہے، عوام پی ٹی آئی سے مفادات کی خواہاں ہے اور کسی بھی حکومت سے عام آدمی کا مفادات کا تقاضا کرنا یا امید باندھنا ہی جمہوریت کا نام ہے، جمہور سے جمہوریت! عوام کی غالب اکثریت فی الحقیقت انتخابات کی خواہاں ہے جبکہ ملک کی 13 جماعتوں پر مشتعمل اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت ایسا نہیں چاہتی، لہذا الیکشن کمیشن سے 30 اپریل کی بجائے اکتوبر میں پنجاب کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا، جس رات یہ اعلان کیا گیا، تب دو بڑے کام ہوئے، ایک رمضان المبارک کا اعلان تاخیر کا شکار رکھا گیا، الیکشن ملتوی کرنے کے تین منٹ بعد ماہ مقدس کے چاند نظر آنے کا اعلان ہونے دیا گیا، ہزاروں افراد کی نماز تراویح رہ گئی، رمضان کی تیاریوں میں عوام مگن ہوگئی، دوسرامحض ڈیڑھ گھنٹے بعد گھڑی کی ٹن ٹن کیساتھ 12 بجے اور 23 مارچ کو 1973 کے آئین کی 50 ویں سالگرہ کا یوم شروع ہوگیا، اسی روز یوم قرارداد پاکستان بھی تھا، 23 مارچ کو جس عظیم مملکت خداداد کی قرارداد لاہور کے منٹو پارک میں منظور کی گئی تھی، پاکستان کے اس صوبہ پنجاب میں انتخابات ملتوی کر دئیے گئے، اب گرما گرم بحث جاری ہے کہ انتخابات کا التوا آئینی ہے یا غیر ائینی؟ ویسے برطانوی طرز پارلیمانی نظام میں کبھی بھی کوئی بات سیدھے سادھے انداز میں بتانے کا رواج نہیں، کسی بھی بحران یا مسئلے پر گھنٹوں، ہفتوں، مہینوں اور بسا اوقات سالوں کی تکرار کے بعد بھی اسکا حل متفقہ طور پر پیش نہیں کیا جاتا، اگر کسی جانب سے انفرادی طور پر کوئی کارآمد حل تجویز ہو بھی جائے، اس طرف کان نہیں دھرے جاتے، تاہم اس مرتبہ معاملہ بہت سیدھا ہے، انتخابات کا التوا اتنا ہی آئینی ہوتا تو اسکی تاریخ سے لے کر حالیہ التوا تک حکومت اور تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن وغیرہ کو اتنے لیت ولعل سے کا م نہ لینا پڑتا، پنجاب یا کے پی کے اسمبلی کی تحلیل کے فوری بعد الیکشن کمیشن سامنے آتا اور کہتا کہ فلاں فلاں جواز ہے، فلاں فلاں آئینی شق انھیں اجازت دیتی ہے، لہذا انتخابات کا فی الوقت انعقاد ممکن نہیں لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا کیونکہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا، جتنا بتایا جا رہا ہے، آئین واضح طور پر اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں 90 روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پابند کرتا ہے، ہاں اگر کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سوٹ نہ کرتے ہوں تو ایسی صورت میں دو ایوانوں قومی اسمبلی اور سینٹ سے آئینی ترمیم ضروری ہے، جسکے لئے ان دونوں ایوانوں سے منظورہ کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہے، حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں اور پھر ایسی کوئی ترمیم اگلی مدت حکومت کیلئے کارگر ہوگی، گویا انتخابات تو 90 روز میں کروانا ہی ہونگے، اب کوئی کہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں، پھر دوسری جانب سے ان آوازوں کا کون جواب دے کہ لیپ ٹاپ کی تقسیم کیلئے 150 ارب ہیں لیکن انتخابات کیلئے 20 سر 21 ارب نہیں! الیکشن کمیشن آرٹیکل 58 کے تحت انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں درپیش روکاوٹوں، وسائل کی عدم دستیابی وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ تو کہہ سکتا ہے کہ وہ انکو یقنی نہیں بنا سکتا لیکن انتخابات کو ملتوی کرتے ہوئے نئی تاریخ کیسے تجویز کر سکتا ہے، عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات 90 روز کے اندر انعقاد پذیر کرنے کا کہنے کے بعد سپریم کورٹ میں یہی کیس تھا کہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کون کرے گا؟ پنجاب میں چونکہ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائز پر گورنر نے دستخط نہیں کیے تھے، لہذا ان انتخابات کی تاریخ صدر مملکت نے تجویز کی، اس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بھی طے پایا کہ تاریخ کا تعین ہر دونوں صورتوں میں ایگزیکٹو نے کرنا ہے، الیکشن کمیشن کا ایسا کوئی استحقاق نہیں لیکن الیکشن کمیشن ایسا اعلان کر چکا ہے، اس اعلان سے چند لمحوں قبل وزیر داخلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ انتخابات پوری ملک میں اکٹھے ہوں کیونکہ یہ انتخابات ملک کا 60 فیصد بنتے ہیں، ایسی خواہش پہلی مرتبہ سامنے نہیں لائی گئی تھی مریم نواز، مولانافضل الرحمان وغیرہ اپنے اپنے مخصوص پیرائے میں اسکا اظہار کر چکے ہیں، بہرحال آئین شکنی ہوئی یا نہیں؟ معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی رخ اختیار کرے گا جبکہ سیاسی طور پر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، قارئین کو یاد کرواتے چلیں مریم نواز نے کہا تھا: ترازو کے دونوں پلڑے برابر کرو، پھر الیکشن ہونگے، نہیں تو نہیں ہونگے، عمران خان کے بارے میں مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ جب تک نہتی پولیس پی ٹی آئی کے مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ کریگی کارگر نہیں ہوسکتی، آئی جی پنجاب کا جوانوں سے جوشیلا خطاب سامنے آچکا، عمران خان نے کارکنوں کو مزاحمت سے روکتے ہوئے ہدایت کردی ہے کہ یہ مجھے گرفتار کرنے آئیں تو گرفتار کرنے دیا جائے کہ یہ پولیس والوں کی خود ہی لاشیں گرا کر انتخابات سے فرار چاہتے ہیں، وزیر دفاع الزام عائد کرچکے ہیں کہ عمران خان خود پولیس والوں کی لاشیں گرا کر ملبہ ہم پر ڈالنا چاہتا ہے، عمران خان ایک قدم اور آگے بڑھے ہیں؛ انھوں نے کہا ہے کہ حکومت انھیں مرتضی بھٹو کی طرز پر قتل کروانا چاہتی ہے، ان چند سنگین نوعیت کے الزامات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ سیاست کیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے، جس طرح کا مزاج ن لیگ کے سرگودھا کے جلسہ کے بعد وکلا میںپایا جارہا ہے، ایک مرتبہ پھر بڑی وکلا تحریک شروع ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا انتخابات کے التواپر صرف الیکشن کمیشن مورد الزام ٹھہرے گا؟