یوں تو اس بدنصیب ملک کا کون ہے جو مقروض نہیں ۔ لیکن سب سے بڑا اور پہلا قرض عدالت عالیہ کے ذمے تھا سو لگتا ہے کہ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب عدلیہ عظمیٰ قوم و ملک سے یہ فخر و انبساط کہہ سکے گی کہ وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا۔ تو یہ جو چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر جج صاحبان جن جن شخصیات اور اداروں سے حساب لے رہے ہیں اور بہت صحیح طور پر لے رہے ہیں۔ یہ اصل میں اپنا حساب چکانے ہی کی بے غرضانہ اور مخلصانہ کوشش ہے جس پر وہی لوگ معترض ہیں جن کی دُموں پر پائوں پڑا ہے۔ جن کے مفادات کو صدمہ پہنچا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ سے جو واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے جمہوری سفر کو اولین جھٹکا مولوی تمیزالدین خاں کیس میں پہنچا جب گورنر جنرل غلام محمد کے غیر آئینی فیصلے کو کہ انہوں نے نہایت آمرانہ طریقے سے نہ صرف وزیر اعظم کو برطرف کیا بلکہ اسمبلی بھی توڑ ڈالی تھی‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے بحال رکھا حالانکہ سندھ چیف کورٹ اسے غیر آئینی اقدام قرار دے چکی تھی۔ بہت بعد میں جسٹس منیر نے یہ اعتراف ان کا یہ فیصلہ آئین و قانون کی روشنی میں نہیں سیاسی مصلحتوں یا دوسرے لفظوں میں دبائو کے تحت کیا گیا تھا۔ جسٹس منیر کے اس فیصلے نے جمہوریت کی گاڑی کا کانٹا ہی بدل دیا۔ پھر یہ عدالت عالیہ ہی تھی جس نے ایوب‘ ضیاء اور مشرف کی فوجی حکومتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔ جنرل یحییٰ خاں کے مارشل لاء کو عدالت عالیہ نے ناجائز اور جنرل یحییٰ خان کو غاصب اس وقت ڈکلیئر کیا جب ملک ٹوٹ چکا تھا اور یحییٰ حکومت قوم کی پیشانی پر ذلت کا داغ لگا کر رخصت ہو چکی تھی۔ جنرل ضیاء نے جب جونیجو کو فارغ کیا اور اسمبلی توڑ ڈالی تو اس مقدمے کا فیصلہ بھی جنرل ضیاء کی دنیا سے رخصتی کے بعد کیا گیا اور فیصلے کو غیر آئینی تو کہا گیا لیکن منطق یہ نکالی گئی کہ جس طرح مردہ زندہ نہیں ہو سکتا اسی طرح برطرف شدہ اسمبلی اب بحال نہیں کی جا سکتی۔ عدالت عظمیٰ کے یہ فیصلے جنہوں نے ہمارے ملک میں فوجی راج کو مضبوط و مستحکم کیا‘ جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں جمہوری روایات پروان نہ چڑھ سکیں‘ جمہوری ادارے پھل پھول نہ سکے۔ بندوق کی نال پہ حکومت کرنے کی عادت نے مکالمے اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے کے بجائے طاقت ہی سے ہر مسئلے کو بالجبر حل کرنے ہی کو راہ نجات سمجھ لیا گیا۔ بندوق کی حکومت نے بندوقوں کی سیاست کو رواج دیا۔ سیاست ہی نہیں مذہب اور معاملات میں بھی تحمل و برداشت رخصت ہوئے‘ اختلاف رائے کو مخالفت سمجھ کر انتقام اور بدلے کا رویہ عام ہوا۔ بے حسی بے رحمی شقاوت اور سنگ دلی کے ایسے مظاہر سامنے آنے لگے کہ جنگل کا قانون بھی اس لاقانونیت کے سامنے قابل رشک نظر آنے لگا کہ جنگل کے قانون میں بھی کوئی نہ کوئی اصول و قانون تو رائج ہوتا ہی ہے۔ معاشرے سے جب عدل و انصاف رخصت ہو جائیں کمزور اور بے وسائل طبقات بے پناہ ہو جائیں اور طاقتور اور بااثر طبقات موج اڑائیں‘ قانون اور ضابطے سے بالاتر ہو جائیں۔ ہر طرف بدعنوانی اور بدمعاشی کا رواج پڑ جائے۔ دنیا بھر میں ملک کا امیج ایسا ہو جائے کہ کسی بھی ایئر پورٹ پر بیرون ملک کا ہرا پاسپورٹ دیکھتے ہی کسٹم اور سکیورٹی حکام کے کان کھڑے ہو جائیں۔ پاکستانیوں کو ’’پاکی‘‘ کہہ کر ان کے ساتھ ناپاکی کا غبن رویہ اختیار کیا جائے اور برتائو ایسا کیا جائے کہ ہر باشندہ ہمارے ملک کا چور‘ ڈاکو‘ دہشت گرد اور بنیاد پرست ہے تو کیا یہ نہیں سوچا جانا چاہیے کہ ایک قوم‘ ایک ملک کی بربادی اور حرماں نصیبی کی یہ ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے۔ یوں تو ذمہ دار سیاست داں اور سیاسی جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے مفاد پرستانہ‘ منافقانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے جمہوری ماحول کو پراگندہ اور جمہوری روایات پر سے عام آدمی کا اعتماد اٹھا دیا۔ ذمہ دار وہ طالع آزما فوجی جرنیل بھی ہیں جنہوں نے فوج کو سیاست میں ملوث کر کے ملک کوناقابل برداشت صدمہ ہی نہیں پہنچایا ملک کے حصے بخرے بھی کر ڈالے۔ ذمہ دار ہر وہ طبقہ ہے جس نے اپنے انفرادی یا گروہی اور طبقائی مفاد کو قومی مفادات پر ترجیح دی لیکن سچ پوچھیے تو سب سے بڑی سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ کے ادارے پر عاید ہوتی تھی اور آج بھی ہے کیوں کہ کوئی ملک اور معاشرہ پرسکون و پرامن نہیں رہ سکتا اگر اس میں عدل نہ ہو‘ یہاں تک کہ عدل و انصاف کے بغیر اس کے وجود کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں یہ ذمہ داری ملک کی عدالتوں اور جج صاحبان کی ہے کہ وہ ہر خوف اور مصلحت سے بالاتر ہو کر مظلوموں کی داد رسی کریں۔ عدل و انصاف کی فراہمی آسان اور عام کر دی جائے تو ہر ظلم اور ہر محرومی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ ظالم خواہ گورنر جنرل ہو‘ خواہ جرنیل ہو خواہ سیاست دان ہی ہو۔ یہ عدلیہ کا فرض ہے کہ اس کو ظلم سے روکے اور مظلوم کو اس کا حق دے۔ لیکن ہماری عدلیہ نے بدنصیبی سے ہمیشہ ظالم ہی کے حق میں فیصلہ کیا۔ مقبول و منتخب جمہوری رہنمائوں کو جس سازشی انداز میں تختہ دار تک پہنچایا گیا یا اسے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ محض اس لیے کہ فیصلہ مصلحت کی بنا پر یا دبائو کے تحت کیا گیا تھا۔ اس لیے ہماری رائے میں اب جب کہ اوپر سے نیچے تک ہمارے سارے جمہوری ادارے انتظامی مشنریاں اور جملہ معاشرتی ڈھانچہ بدترین بدانتظامی اور بدعنوانی کا شکار ہو کر ناقابل برداشت ہو چکا ہے یہ ذمہ داری بہر طور عدلیہ ہی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نہایت دیانت داری‘ غیر جانبداری اور بے خوفی سے انصاف کا نظام قائم کرے‘ وہ ہر اس فردکو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئے جو اس قوم کا مجرم ہے۔ ستر برسوں کے اس مہیب گند کو صاف کرنا اور ہر پنڈورا بکس کو کھولنا آسان نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اصولاً طاقتور کا احتساب پہلے ہو‘ وہ شخصیات اور ادارے جو اب تک ہر قانون اور ضابطے سے خود کو بالاتر سمجھتے رہے ہیں ان کو صفائی کا پورا موقع دے کر اگر وہ مجرم پائے جائیں تو کڑی سزا دی جائے۔ اسی سے عدالتوں کا اعتماد اور ان کا وقار ہی بحال نہیں ہو گا خود قانون کی بالادستی بھی قائم ہو گی۔یہ ملک جن اسباب کی بنیاد پر موجودہ نوبت تک پہنچا ہے اس میں سب سے بڑا سبب قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے۔ جس دن یہ اعتماد اور یقین قائم ہو جائے گا کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی بالادست اور طاقتور ہو‘ قانون سے زیادہ طاقتور اور بالادست نہیں ہے۔ یقین جانیے‘ وہ دن اس قوم کی نجات کا دن ہو گا۔ عدالت عالیہ اور اس کے محترم جج صاحبان نے جس جرأت مندی اور ہوش مندی سے ملک میں عدل و انصاف کے قیام‘ اداروں میں جواب دہی کا احساس اور تجارتی مفاد پرستی کے مقابلے میں قومی احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے مختلف مقدمات نمٹانے‘ اداروں کو گرفت و احتساب میں لانے اور انصاف کو انصاف نظر آنے کے اقدامات اٹھانے کا آغاز کیا ہے۔ اس سے یہ امید بندھ چلی ہے کہ جس تبدیلی کا آغاز پارلیمنٹ اور انتظامیہ اور شہری اداروں سے ہونا چاہیے۔ اب اس کی ابتدا عدلیہ سے ہونا شروع ہو گئی ہے ایسا ہونا بھی چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا جو ادارہ قوم و ملک کا زیادہ مقروض ہے‘ ادائے قرض میں پہل کرنا بھی اسی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ خدا کرے کہ دوسرے قومی ادارے بھی ہماری عدلیہ کی پیروی کریں اور تعمیر وطن میں اسی بے خوفی سلامتی فکر اور درد مندی سے اپنا حصہ بٹائیں تاکہ ہم فیض زبان میں کہہ سکیں کہ بے شک نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی تھی مگر اب آنے والی ہے۔