خان صاحب کی بڑے خاں صاحب یعنی ایوب خان کے ساتھ عقیدت وارفتگی کی حد سے بھی آگے ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔وہ کئی برسوں سے بار بار ایوبی دور کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں‘ان کے دور کی ’’ترقی‘‘ ’’خوشحالی‘‘ اور ’’ملکی وقار‘‘کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔حتمی طور پر اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ترقی و خوشحالی اور ملکی وقار سے وہ کیا معنی لیتے ہیں۔خیر یہ لمبا موضوع ہے یہاں تذکرہ خاں صاحب کی حکومت کی اس تازہ کوشش کا ہے،جس میں مارشل لاء کا بین السطور جواز تلاش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سیاستدان تو اتنے نااہل ہیں کہ دستور بھی نہیں بنا سکے‘مجبوراً ایوب خاں کو آگے آنا پڑا اور انہوں نے 62ء کا دستور دیا(جس میں نقلیSHAMجمہوریت کی جگہ حقیقی (بنیادی) جمہوریت کا نظام دیا گیا۔ جی‘یہ کوشش نویں جماعت کی نصابی کتاب برائے مطالعہ پاکستان کے صفحہ 43پرلکھا ہے کہ بھارت نے آزادی کے بعد اپنا دستور اڑھائی سال میں بنا لیا لیکن پاکستان کے سیاستدان اس اہم مسئلے کو لٹکاتے رہے۔آخر کار صورتحال ایسی ہو گئی کہ مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا اور ایوب خاں کافی عرصے سے سیاست کو قریب سے دیکھتے رہے تھے۔انہوں نے بنیادی جمہوریت کا نفاذ کر دیا۔ کتاب کے مصنفین کو یہ الہامات کہاں سے ہوئے۔بتانے کی ضرورت نہیں۔تاریخ پاکستان کی کتابوں میں ساری تفصیل موجود ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد جن کی ڈور ایوب خاں کے ہاتھ میں تھی‘کس طرح حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہے اور سیاستدانوں کو آئین بنانے کا موقع ہی نہ دیا۔پھر بھی چودھری محمد علی کی حکومت نے1956ء کا آئین بنا ڈالا،جس سے ایوب خاں بری طرح خوفزدہ تھا‘اس نے پھر بساط ہی الٹ دی۔بہرحال بعض حلقے الزام سیاستدانوں ہی کو دیں گے، جس طرح وہ جمہوریت کی مذمت کرتے ہیں۔اگرچہ وہ تاریخ کو بدلنے سے قاصر ہیں، جس میں صاف لکھا ہے کہ 1977ء کے بعد سے جمہوریت بحال تو ضرور ہوتی رہی لیکن حالت بے حالی میں اور کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔تاریخ ان حلقوں کا یہ قول فیصل ماننے سے انکاری ہے کہ جمہوریت ناکام رہی‘وہ یہ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو چلنے ہی نہ دیا گیا۔خیر کی خبر البتہ اب یہ ہے کہ تاریخی ادوار کی وہ گردش اب پوری ہونے کو ہے۔ ٭٭٭٭٭ داسو ڈیم پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد سے چینی انجینئروں نے وہاں کام کرنا بند کر رکھا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ فول پروف سکیورٹی دی جائے۔یہ فول پروف سکیورٹی کیا ہوتی ہے‘اتفاق سے ریاست پاکستان یہ بات جانتی ہی نہیں۔اب خبر ہے کہ چینی کمپنی نے حکومت سے 7کروڑ 60لاکھ ڈالر ہرجانہ مانگ لیا۔دہشت گردی کے اس واقعے میں کمپنی کے 10چینی اور 4 پاکستانی کارکن مارے گئے تھے۔خاصی بڑی رقم ہے۔روپوں میں یہ رقم 13ارب 52کروڑ بنتی ہے۔خیر کوئی بات نہیں۔کچھ ہی عرصہ پہلے ایک اینکر پرسن نے برسر ٹی وی یہ اطلاع دی تھی کہ نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت تب ملی، جب انہوں نے پانچ ہزار ارب روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی۔یہ 13ارب انہی پانچ ہزار ارب میں سے دیے جا سکتے ہیں۔یہ بدظنی مت کیجیے کہ نواز شریف نے جو رقم جمع کرائی تھی‘اس کا کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔اتہ پتہ ہے حضور‘قومی خزانے کے کسی تہہ خانے میں جا پڑی ہو گی اور کہاں گئی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ انسانی حقوق کمشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہو گئی ہے۔ مغالطہ انگیز رپورٹ ہے۔درحقیقت پاکستان میں انسانی حقوق باقی دنیا کے مقابلے میں اب بھی بہت سستے اور ارزاں ہیں۔لگتا ہے‘انسانی حقوق کمشن اپوزیشن کی باتوں میں آ گیا ہے جو رات دن مہنگائی کا رونا رویا کرتی ہے۔پاکستان میں ہر شے باقی دنیا کے مقابلے میں بہت سستی ہے‘خاص طور سے انسانی حقوق تو بہت ہی…! ٭٭٭٭٭ چند روز پہلے ایک اور بڑے اینکر پرسن نے عمران خاں کو (تقریباً) خدا حافظ کر دیا اور ان کے وہ سارے ستم اپنے ولاگ میں بتا دیے جو قوم پر ڈھائے گئے۔ ’’تحویل قبلہ‘‘ کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔پچھلے دو برس میں ایسے چھ سات واقعات ہو چکے ہیں اور اتنے یہ کالم نویس بھی‘قبلہ راست کروم‘‘ کے زمرے میں شامل ہو چکے ہیں۔کچھ خاموشی ہیں یعنی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی تیار بیٹھے ہیں۔ہفتہ ڈیڑھ پہلے ایک اور اینکر پرسن نے معافی مانگی اور کہا کہ اس نے نواز شریف پر کرپشن کا جھوٹا الزام لگایا تھا،اس نے دو ٹوک کہا کہ مجھے کسی نے کہا تھا کہ نواز شریف کو کرپٹ کہو‘میں نے کہہ دیا‘اس پر معافی مانگتا ہوں۔کرپشن سے ایک اور بات یاد آئی۔تحریک انصاف کے بیانیے کی بنا اس بیان پر تھی کہ نواز شریف نے تین ہزار کروڑ روپے کی کرپشن کی۔پی ٹی آئی کے بعض ’’پرجوش‘‘ بیان بازوں نے یہ گنتی تین ہزار ارب کی کر دی۔خیر‘بہت مہینے ہوئے ایک صحافی نے پاکستان کے ایک معاشی جادوگر کو گھیر لیا اور اس سوال پر کریدا تو اسد عمر یہ کہہ کر چلتے بنے کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ایک اور اینکر پرسن نے اسحاق ڈار پر کرپشن کے سارے الزام’’انجینئرڈ‘‘ قرار دیے۔کمال ہے‘یہ تو کسی اور ہی طرح کے ’’ہوائے تبدیلی‘‘ چل پڑی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ اشرافیہ جونکوں کی طرح عوام کا خون چوس رہی ہو۔ایک بار بھینسوں کے باڑے کے پاس سے گزر ہوا۔ایک بھینس کو جونکیں لگی ہوئی تھیں اور ان کا مالک یعنی ’’بھینس بان‘‘تشویش سے صورتحال کو دیکھ رہا تھا۔مجھے دیکھا تو روکا اور بولا‘دیکھو جونکیں اشرافیہ کی طرح اس بے چاری کو عوام سمجھ کر چمٹی ہوئی ہیں۔