پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے فل کورٹ کے فیصلے کے بعد دل نامراد میں امید بیدار ہوئی کہ اب ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں نظر یہ ضرور ت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے گا،خیر دیکھتے ہیں اس کا کیا بنتا ہے۔ جس طرح میاں نواز شریف کو عدالتی ریلیف مل رہا ہے، امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں پریس کانفرنس سے پہلے ایک شخص اشتہاری اور دہشت گردی کے پرچوں میں مطلوب ہوتا ہے مگر جونہی وہ ٹی وی پر انٹرویو یا پریس کانفرنس کے ذریعے ماضی کی سیاسی زندگی سے اعلان لا تعلقی کرتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔پاکستان کی ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کبھی ایک نکتہ محرم کو مجرم بنا دیتا ہے تو کبھی گناہوں میں لتھڑے شخص کو بپتسمہ کے ذریعے پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔ آج میاں نواز شریف کے تمام گناہ دھل گئے ہیں اور عمران خان کو صلیب پر لٹکا نے کے لئے نظریہ ضرورت کے اوزار وں کی انیاں سل پر تیز کی جارہی ہیں۔ پاکستان کی ماضی کی تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہو گا کہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، ضمیر فروشی، سیاسی وفاداریاں تبدیل کر نا اور ابن الوقتی ہمارے ہاں عام رواج بن چکا ہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وکلاء کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منیر نے اعتراف کیا تھا کہ میں نے غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کے احکامات کو مجبوراً نظریہ ضرورت کے تحت سند توثیق عطا کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے سامنے ایک بڑی مشکل صورتحال تھی ۔ایک طرف دونوں مواقع پر حکومت وقت تھی جو پوری طرح با اختیار اور انتہائی طاقتور تھی اور دوسری طرف دو کمزور مدعی تھے۔ میں اگر ان کے حق میں فیصلہ دے بھی دیتا تو دونوں حکمران اس کو ماننے سے انکار کر دیتے اور ملک کا عدالتی نظام دھڑم سے نیچے آگرتا۔ دوسو کیس میں جسٹس منیر نے کیا منطقی دلیل دی جو طاقت ور کے لیے قانون اور آئین کو باندی بنا کر رکھ دیتی ہے "ایک کامیاب فوجی انقلاب خود ایک نئے دستوری اور قانونی نظام کا سرچشمہ بن جاتا ہے اس لئے ایوب خان کے مارشل لاء کو آئین کے منافی ہونے کے باوجود نا جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے" ہماری بدقسمتی کہ پانچ جولائی کے 1977 کے جنرل ضیاء الحق اور مشرف کے دور حکومت کو بھی نظر یہ ضرور ت کے تحت سند توثیق عطا کردی گئی ۔بھٹو کو بھی ضیاء الحق کے ذاتی نظریہ حکومت اور بقا کے لیے پھانسی کی سزا دے دی گئی، نسیم حسن شاہ نے اسکا اعتراف کیا کہ نوکری بچانے کے لیے انہوں نے بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کی توثیق کی۔ آج بھی یہ ذہنیت ہماری عدلیہ میں موجود ہے دو چار استثناء رکھتے ہوں تو الگ بات ہے آج بھی اس فلسفے کا پوری طرح اطلاق ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ایک ایک فرد کو طاقت وروں نے پیغام دے دیا ہے کہ بھینس اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس لاٹھی ہو۔ میاں نواز شریف کو آج اس کی سمجھ آگئی ہے عمران خان بھی سمجھ جائے گا آج is Right Might کا فلسفہ پوری قوم کے تمام طبقوں کے تحت الشعور میں جا گزین ہو گیا ہے، دلوں سے قانون کی حکمرانی اور اور احترام کے تصورات مٹ گئے ہیں۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں کہ غریب ملزمان کے مقدمات بھی اسی جذبے اور تندہی سے سنے جائیں جیسے اعلی مناصب رکھنے والے افراد کے سنے جاتے ہیں بلکہ کچھ طبقوں کے لیے تمام قوانین بالاے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں۔ ایسے خوش نصیبوں میں جنرل مشرف اور نواز شریف سر فہرست ہیں ۔پاکستان میں اگر ٹریفک قوانین کے حوالے سے بھی ہمارا رویہ مثالی نہیں ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے تحت الشعور میں نظریہ ضرورت کام کر رہا ہے ۔نظریہ ضرورت کے تحت چارمشہور مقدمات دوسو کیس، عاصمہ جیلانی کیس، نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس کے علاوہ 2014 سے لے کر آج تک کے اعلی عدلیہ کے بیشتر مقدمات کے فیصلے چاہے وہ پانامہ کیس ہو یا عمران خان کی توشہ خانہ میں نا اھلی کا فیصلہ ہو __ان تمام مقدمات میں نظریہ ضرورت کو ہمارے ہاں اپنانے سے قانون کی حکمرانی کے تصورات کو نیست نابود کر دیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس نظریہ ضرورت کے تحت ایک انتہائی شرمناک کاروائی تھی وہ تو اللہ کی کرم نو ازی کہ قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ نے انتہائی حوصلے، صبر اور برداشت سے ان الزامات کا سامنا کیا اور اللہ نے ان کو سرخرو کیا اور آج وہ قاضی القضاہ کے منصب پر فائز ہو کر آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے اپنا بھرپور کردار مصلحت سے بالاتر ہو کر ادا کر رہے ہیں۔ ایسے منصفین ہی تا حیات تاریخ میں اور لوگوں کے دل میں عزت اور احترام کے جذبات سے زندہ و تابندہ رہتے ہیں جبکہ جسٹس منیر ہو، انوار الحق ہو، جسٹس مشتاق اور اس قبیلے کے دوسرے ججز کو تاریخ کے کوڑے خانہ میں پھنک دیا جاتا ہے جس مفہوم میں ہمارے ہاں فیصلوں میں نظریہ ضرورت کو اپنایا گیا یا اپنایا جا رہا ہے وہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ ہم جانتے ہیں ہمارے آقا حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ سلام نے جب ایک عورت کو چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تو اس کی سفارش کی گئی کہ وہ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں سزا میں نرمی کی جائے تو آپ کا جواب تھا "اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرتی تو اسے بھی یہی سزا دیتا" قانون، مساوات اور قانون کی حکمرانی کا اس سے ارفع سبق کوئی اور نہیں ہے اگر ہم اپنے ملک میں طاقتور افراد کو عدالتوں پر حملہ کر کے یا انہیں غیر مرئی طاقتوں کے زیرِ اثر لا کر اپنے حق میں فیصلے کروانے سے نہیں روکیں گے تو میری قطعی رائے ہے کہ اس ملک کبھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔منصفانہ احتساب اور انتخابات کبھی نہیں ہونگے ،جمہوریت اور انتخابات کے نام پر سلیکشن ہو گی اور پاکستانی قوم کو نظریہ ضرورت کے آسیب سے کبھی نجات نہیں مل سکے گی اور اس مزمن مرض کے ہوتے ہوئے ہم کبھی بھی ایک قانون پسند قوم نہیں بن پائیں گے اور کبھی بھی آئین اور قانون حکمرانی ارفع جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق ریاست کا جزو لاینفک بن پائے گی۔