پاکستانی نظام تعلیم بلاشبہ ہماری تنزلی کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ ہے اور اسے نظام تفریق کہا جائے تو کوئی مبالغہ نا ہوگا۔ معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے میں موجودہ تعلیمی نظام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پچھلے چھیہتر سالوں سے ہمارا معاشرہ کہیں لسانی تو کہیں معاشی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے۔ امیر کے لیے الگ اور غریب کیلیے الگ سکول، کالج اور یونیورسٹی مستقبل کے معماروں کو ایک صف میں بھلا کیسے کھڑا کر سکتی ہیں۔ تعلیم جو کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے جو کسی قوم کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ہمارے ہاں وہ تعلیم محض غلامی کی زنجیر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ جو ذہنی غلامی ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے ہم نسل در نسل منتقل کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم ہمیں سوچنا نہیں سکھاتا بلکہ عقل و فہم پہ ایسے بھاری قفل لگا دیتا ہے کہ پھر ساری زندگی یہ تالے نہیں کھلتے۔ وہ قوم جو پہلے ہی "ایک قوم" کی بجائے مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ریوڑ ہے پاکستانی نظام تعلیم ہمیں مزید تقسیم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ترقی و خوشحالی کا جو خواب ہم دیکھتے ہیں اور اپنی نوجوان نسل کو دکھاتے ہیں وہ موجودہ نظام تعلیم کے تحت کبھی بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ تفریق کی پہلی اینٹ اردو اور انگریزی میڈیم تعلیمی ادارے ہیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جسطرح ہمارے نوجوانوں کو احساس کمتری کا شکار کر رہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ ایک قوم ایک نصاب کے فارمولے کے تحت بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اسکے مثبت اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے جب تک اردو انگریزی کے بھنور سے بچوں کو باہر نا نکالا جائے۔ سرکاری سکولوں میں اردو میں تعلیم دی جاتی ہے اور پرائیویٹ اداروں میں طلباء و طالبات اردو زبان سے خار کھاتے ہیں اور شدید بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور یہی طالبعلم جب اعلی تعلیمی اداروں میں اکھٹے ہوتے ہیں تو ان میں نمایاں تفریق دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں اردو بولنے پر جرمانہ عائد ہو اور صرف انگریزی زبان کے بولنے لکھنے اور پڑھنے پر زور دیاجائے وہاں کیسے ممکن ہے کہ بچے اپنے وطن اور اپنی زبان کی محبت سے آشنائی حاصل کریں ؟؟ زبان کے علاوہ دوسری تفریق جو ہمارا نظام تعلیم دیتا ہے وہ طبقاتی تقسیم ہے۔ مہنگے تعلیمی ادارے، ہزاروں لاکھوں کی بھاری فیسیں، انگریزی زبان اور کلچر سے مرعوب ماحول ، اپنے عقائد و روایات کی بجائے مغربی اور لادینیت پر مبنی کلچر کی تعلیم و ترویج دراصل ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے ہی وطن کو برا بھلا کہتے ہوئے باہر کا رخ کرتی ہے کہ آخر اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ؟؟ جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ساری زندگی سرکاری نظام سے لڑتے اور اسے کوستے ہوئے گزار دیتا ہے۔ ایسے نوجوان پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کریں یا سرکاری ملازمین کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دیں دونوں صورتوں میں مایوسی، پشیمانی اور احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ بہرحال ، ایک بات تو طے ہے کہ اردو میڈیم ہو یا انگلش دونوں نظام ہمارے ملک کو قابل، ماہر اور محنتی افرادی قوت فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ تعلیمی اداروں نے جب سے کاروباری مراکز کی حیثیت اختیار کی ہے بحثیت قوم ہم نے پیسے کے حصول کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔ گلی محلے میں برساتی کھمبیوں کی مانند نمودار ہوتے پرائیویٹ سکول ہر ممکن طور پر والدین سے پیسہ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں اور والدین اپنی خون پسینے کی کمائی شوق سے انکے حوالے کرکے بدلے میں ذہنی غلامی خرید رہے ہیں۔ جبکہ سرکاری سکولوں میں تھوڑی فیس، سستی کتابیں اور سستے یونیفارم کے عوض ایسی نوجوان نسل تیار ہو رہی ہے جو رٹہ اور نقل کے ہر ممکن طریقے سے واقف ہوتی ہے۔ خیر رٹہ سسٹم تو ہمارے تعلیمی نظام کی پہچان بن چکا ہے چاہے اردو میں ہو یا انگریزی میں۔ تعلیم میں تحقیق اور نئے خیالات و افکار کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور کہیں ایسا ہو بھی جائے تو وسائل ہی میسر نہیں ہوتے کہ کسی نئے مضمون پر تحقیق کے دروازے کھولے جا سکیں۔ اس ضمن میں یہ کہتا چلوں کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے اور ہر سال ہمارا قومی بجٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ کل جی ڈی پی کا کتنے فیصد ہماری تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو بھی سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہو اس کا زیادہ تر وقت اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے اور بلند و بانگ دعووں میں گزر جاتا ہے اور اصل حقائق کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں ہوتی۔ لہذا ضروری اور ٹھوس اقدامات پر فی الفور عمل کر کے بہتری کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ تعلیم کے نام پرجو مافیاز معاشرے میں لوٹ مار کر رہے ہیں انہیں حکومت اپنی نگرانی میں لے اور پورے پاکستان میں ایک ہی نصاب و نظام نافذ ہو۔ اردو زبان کی تعلیم و ترویج ہر سطح پر ضروری ہے نیز سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور میتھمیٹیکس STEMشعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے بحثیت قوم موجودہ اور آنے والے دور کے چیلنجز سے نمٹنا ہے تو اپنی نئی نسل کو تمام جدید تعلیمی ہتھیاروں سے لیس کرنا ہو گا۔ پاکستان کے آئین کے تحت ابتدائی تعلیم سے لے کر سولہ سال تک فری تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ باتیں محض آئین کی حد تک ہی ہیں کبھی انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو چھیہتر سالوں سے حل ہونے میں نہیں آ رہا اور اسکی بنیادی وجہ تعلیم و تربیت کی قلت اور وسائل کی کمی ہے۔ تعلیم کیساتھ ہنر مند افراد کی تخلیق انتہائی اہم ہے تاکہ ہم وطن عزیز کو تعلیم یافتہ افراد کیساتھ بہترین افرادی قوت بھی فراہم کریں ناکہ مختلف طبقات میں بٹی ہوئی قوم!!