پاکستان کی سیاست، سماج اور معیشت اشرافیہ کی انتقامی سیاست کے سامنے لرزہ براندام ہے۔ یہ انتقامی سیاست پاکستان کے بننے کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی کہ جس عالمی طاقت نے یہاں اشرافیہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پالا پوسا تھا وہ یہاں سے عجلت میں رخصت ہوگئی تھی اور ملکی معاملات ایک سیاسی پارٹی کے سپرد تھے جسکا جنم بھومی بنگال جیسا غیر جاگیردارانہ معاشرہ تھا اور اسکی قیادت محمد علی جناح جیسے آئینی ماہر کر ر ہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ملک کا نیا آئین شہریت کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ نوزایئدہ ملک کو امریکہ نے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا جو جمہوری دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔ اشرافیہ کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ فریب کی سیاست کرے۔اس نے مغربی دنیا کو یقین دلایا کہ امریکی مفادات کی اس خطے میں نگہبانی ایک جمہوری نہیں بلکہ مذہبی ریاست سے ہی ممکن تھی۔ یعنی امریکہ کے فوجی مفادات تو پورے کیے جائیں لیکن پاکستان کو ایک جمہوری ملک بھی نہ بننے دیا جائے۔ امریکہ نے بھی چشم پوشی کی کہ سردست اسکا مسئلہ سوویت یونین تھا نہ کہ ایک نیم قبائلی معاشرے میں جمہوری عمل کا آغاز کرکے اسے انتشار کے حوالے کرنا۔ البتہ واشنگٹن کی مالی امداد سے سڑکیں، پل، ڈیم اور تعلیم و صحت کا ڈھانچہ ضرور تعمیر ہوا۔ اس ساری امداد کے بدلے میں جمہوریت شرط رہی اور امریکہ نے اس کی تعمیل کا مطالبہ اس وقت ضرور کیا جب سوویت یونین سے تعلقات کی بحالی کا راستہ نکلا۔ انیس سو ستر کی دہائی اس کی مثال ہے۔ تاہم اگلی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کی وجہ سے جمہوریت کا معاملہ پس ِپشت چلا گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جمہوریت پاک امریکہ تعلقات میں دوبارہ ترجیج بن گئی۔ امریکہ اب واحد عالمی طاقت بن گیا تھا اور اس تاریخی لمحے کو تا ابد برقرار رکھنے کے لیے اس کے پالیسی سازوں نے یہ ضروری گردانا کہ دنیا بھر میں جمہوریت کو فروغ دیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو ترقی پذیر دنیا سے آمرانہ حکومتوں کا صفایا کردیا جائے کیونکہ وہ انسانی آزادیوں اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں سد راہ تھیں۔ روس اور چین جیسے بڑے ملکوں کو عالمی معاشی نظام کا حصہ بناکر رام کرنے کی کوشش کی گئی۔ امید تھی کہ ان معاشروں میں خوشحالی آئی گی تو وہاں جمہوریت کے چشمے بھی پھوٹ پڑیں گے۔ جمہوریت کے پھیلائو کے سلسلے میں بش ڈاکٹرائن سامنے آیا جس کے اطلاق کے لیے یورپی یونین کو نیٹو کے زیر سایہ مشرقی یورپ کی طرف پھیلنے کی ترغیب دی گئی اور مشرق وسطیٰ میں عراق اور لیبیا کی آمر حکومتوں کے خلاف فوج کشی کی گئی۔ افغانستان سے طالبان حکومت کا پہلے ہی خاتمہ کردیا گیا تھا۔ پاکستان اس وقت دوبارہ صف اول کی ریاست قرار پاچکا تھا اس فرق کے ساتھ کہ اب سوال جمہوریت کا تھا۔ شدت پسند گروہوں سے نمٹنے، جمہوری اداروں کی مضبوطی اور فوجی اڈوں کے بدلے جہاں امریکہ نے امداد دی وہیں پرمعاشی ترقی اور اصلاحات کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے قرضے بھی ملے۔ سیاسی پارٹیوں کی چپقلش کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے تو انہیں جنرل مشرف کے نیم مارشل لا کے ذریعے سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ جب معاشی حالات بہتر ہوئے اور ملک میں تین سطح کا حکومتی نظام متعارف ہوگیا تومتحارب پارٹیوں سے لندن میں میثاق جمہوریت کروایا گیا اور ان کی قیادت کو این آر او کے ذریعے واپس ملک میں لاکر انہیں دوبارہ سیاسی میدان میں ڈال دیا گیا۔ تاہم پورے دس سال ان وراثتی پارٹیوں نے معاشی اصلاحات کو ریورس گئیر اور نظام احتساب کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ معیشت اپنے پاوں پر کھڑاہونے کے بجائے مفلوج ہوگئی۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری تو حاصل کرلی گئی لیکن بنیادی حقوق کی فراہمی میں کلیدی حیثیت کی حامل مقامی حکومتوں کو ختم کردیا گیا۔ جہاں جمہوریت کا تقاضا شہریت کے آفاقی تصور کو اپنانے کا تھا ، ملک کو نسلی وفاق میں بدل دیا گیا۔ اب ملک میں جمہوریت تو تھی لیکن صرف بالادست طبقات کے مفادات کی سرپرستی کے لیے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تعلیم اور صحت کو نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا اور وہ بھی بغیر کسی موثر تادیبی نظام کے۔ بیرونی سرمائے کو تحفظ دینے کے قانون کو کرپشن اور سمگلنگ سے حاصل ہونے والے سرمایہ کو بیرون ملک منتقل کرنے کا ذریعہ بنا یاگیا۔ صلح کل کی سیاست کو معیشت کے سدھار اور اس میں بیرونی سرمایہ کو ترغیب دینے کی صلاحیت بیدار کرنے کی بجائے سی پیک پراجیکٹ سے امیدیں وابستہ کردی گئیں جو اربوں روپے کی نجی سرمایہ کاری کا وعدہ کررہا تھا۔ اس دوران چین امریکہ کے حریف کے طور پر ابھر چکا تھا اور واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی تھیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک نئی پارٹی اقتدار میں آچکی تھی اور اس نظام کی بحالی کی بات کررہی تھی جو مشرف دور میں نافذ تھا اور اسے پچھلے دس سالہ دور میں تہس نہس کردیا گیا تھا۔ سی پیک پراجیکٹس کی وجہ سے درآمدی بل بڑھ چکا تھا اور ملک میں بیرونی قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی۔ بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زیر قبضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ تقریباً جام ہو کر رہ گیا۔ عمران حکومت نے سی پیک پر عملدرآمد روک کر اور آئی ایم ایف سے امداد لیکر معیشت کا پہیہ چلایا، کورونا کی متعدد لہروں کا مقابلہ کیا اور فلاحی منصوبوں (احساس پروگرام، آسان قرضوں اور صحت کارڈ) کے ذریعے عوام کی دلجوئی کی۔ اب جب سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی راہ ہموار ہوئی ہے تو وراثتی سیاسی پارٹیاں انتقامی سیاست کی روش پر چلتے اور حکومت کے ساتھ اندرونی اور خارجہ معاملات پر عدم تعاون سے ہوتی ہوئی عدم اعتماد کی تحریک تک آن پہنچی ہیں۔ نہ تعداد پوری ہے اور نہ ہی اغراض و مقاصد میں ہم آہنگی، لیکن کامیابی کا دعوی دھڑلے سے کر رہی ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے لیے بیرونی ہاتھ کے امکان کو رد بھی کردیں تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ دس سال اقتدار کے مزے لوٹنے والی پارٹیاں انتقام کے جذبات میں اندھی ہوچکی ہیں۔ ان کا مقصد عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا ہے چاہے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو، مقامی انتخابات ملتوی ہوجائیں اور سی پیک کا دوسرا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوجائے۔