روم جل رہا تھا اور نیرو( روم کا حکمران ) بانسری بجا رہا تھا۔بارہا یہ مثال پڑھتے اور سنتے رہے ہیں، اس کی واقعاتی سند سے قطع نظر یہ جملہ اس صورت حال پر منطبق کیا جاتا ہے جب ذمہ داررانہ مناصب پر فائز افراد ( یا ادارے ) موجود صورت حال میں غفلت کا شکار ہوں اور اس پر مطمئن بھی ہوں۔سقوط بغداد ہو یا سقوط ڈھاکہ ان ہی غفلتوں کے تسلسل کے ناگزیر نتائج کی صورت سامنے آئے باعث عبرت آئے ہیں۔تاریخ میں موجود یہ واقعات ان کے اسباب اور نتائج اگرچہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سے حکمران اور دیگر فیصلہ ساز ادارے عبرت حاصل کرتے ہوئے فیصلہ کن لمحات میں غفلت کا شکار نہ ہوں مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حکمران قوتیں کم ہی ان سے سبق حاصل کر پاتی ہیں ۔اس ضمن میں لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور فیصلہ ساز اداروں نے واقعاتی نتائج سے کچھ نہ سیکھنے کا عزم صمیم کیا ہوا ہے۔ پاکستان کا حالیہ ہمہ جہتی ریاستی بحران جس پر عالمی سطح پربھی انتہائی تشویش اور مختلف نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین کی حالیہ اشاعت میں پاکستان کی معاشی اور سیاسی خراب تر صورت حال اور عمران خاں کی بڑھتی ہوئی غیر معمولی مقبولیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عمران خاں کی مقبولیت اور اس کی حکمت عملی نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو تھکا دیا ہے ۔ اور آئندہ انتخابات میں اس کی کامیابی امکانات واضح ہیں۔ اس سے پہلے زلمے خلیل زاد کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے اشارے مل رہے ہیں ۔عمران خاں کے خلاف کارروائی ہوئی تو دنیا پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی۔بادی النظر میں یہ بیان پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت اور دھمکی آمیز ہے مگر اس وقت ریاست کا عالمی تشخص اتنا کمزور اور مجبور محض بن چکا ہے کہ زلمے خلیل زاد جیسے سفارت کار کو بھی یہ کہنے کا موقع مل سکا ہے۔ اس صورت حال کی موجودگی میں تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں اس پر قابو پانے کے لئے ، غور و فکر کی حد تک بھی ،کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔اس کی خراب ہوتی معیشت، امور حکمرانی میں موجود انتشار،اور آنے والے کل کی غیر یقینی کیفیت کے باوجود سیاست دان ذاتیات کی سطح پر محاز آرائی میں الجھے ہوئے ہیں۔تیرہ جماعتی حکمران اتحاد ہو یا پاکستان تحریک انصاف ہر دو کے پیش نظر ایک دوسرے کو سیاسی طور پر ختم کرنا ہی بنیادی مقصد کے طور پر موجود ہے ۔جمہوری سیاست خواہ وہ کسی بھی نچلے درجے پر ہو مکالمہ اور مفاہمت کی متقاضی ہوتی ہے سیاست نام ہی ریاست اور اس کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لئے ممکنات کو تلاش کرنا ہے۔اگر سیاسی قیادت ریاست کو درپیش کسی بھی بحران کو بروقت حل کرنے کی اہلیت سے عاری ہو یا اس سے گریز اختیار کر رہی ہو تو پھر ریاستی انتظام اور ادارتی استحکا م شدید خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال اسی کیفیت کا شکار ہے۔پاکستان کی معاشی آزادی پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے ۔معیشت سے متعلق تمام فیصلے اب I,M.F. کے زیر اثر ہو رہے ہیں۔ غلط سیاسی فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ عدم استحکام سے ایک ایٹمی قوت کی حامل ریاست کی سیاسی آزادی بھی اب خطرات کی زد میں ہے،حکمران اور دیگر سیاسی قیادت ریاست کو در پیش خطرات سے بے نیاز سیاسی بالادستی کی کشمکش میں مصروف ہے۔ریاست اور اس کے شہریوں کی سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قیادت کو قومی اور بین الاقوامی حالات کی اہمیت اور نازک پوزیشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی طاقتیں پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔سیاسی عدم استحکام ، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حالیہ واقعات اور عوامی اضطراب اور اس پر کمزور اور غیر موثر حکومت کی موجودگی۔ سب کچھ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں ہے۔ پاکستان کا ریاستی مستقبل سیاسی اور معاشی استحکام میں مضمر ہے جس کے امکانات ہر گزرتے دن مدہم ہوتے جارہے ہیں ۔ اس لمحہ ء موجود میں فیصلے کی کلید اب بھی سیاسی قیادت اور دیگر مقتدر اداروں کے ہاتھوں میں ہے ۔یہ کب تک غفلت کا شکار رہیں گے، کب تک سیاست کے نام پر ریاست کے ساتھ کھلواڑ جاری رہے گا یہ بائیس کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ ریاست سلامت تو سیاست بھی سلامت ۔کیا اتنی سیدھی بات بھی سیاست دان اور دیگر ادارے سمجھنے سے قاصر ہیں یا خدا نخواستہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ حالات جس نہج پر جارہے ہیں اس کے بے قابو ہوتے نتائج کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوں گے۔حکومت ، جس کی عوامی حمایت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے اور ا س کی پارلیمانی حیثیت بھی کمزور ترین سطح پر ہے ، اس کے اقتدار کا تسلسل حالات کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے۔ صورت حال کی بہتری کے لئے ملک میں ایک مضبوط سیاسی حکومت کا قیام اشد ضروری ہے جس کی پارلیمانی اور عوامی تائید واضح ہو اوراس کا واحد سیاسی راستہ پورے ملک کی سطح پر فوری انتخابات کا انعقاد ہے۔انتخابات سے گریز کی حکمت عملی جس کے لئے خواہ کتنے ہی قانونی اور سیاسی جواز کو بنیاد بنایا جائے اب عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہیں اور نہ ملک کے مفاد میں ہے لہٰذا جتنا جلد ممکن ہو یہ مرحلہ طے کر لیا جائے۔اس ضمن میں فیصلہ سازوں کو نیرو کی پیروی سے گریز ضروری ہو گیاہے۔