پنجاب کا سیاسی بحران ختم نہیں ، صرف وقتی طور پر ٹلا۔22جون تک بدستور بداعتمادی کی فضا برقرار رہے گی۔ تاآنکہ جمہوری اور قانونی طریقے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہو۔11اپریل سے ملک بھر میں سیاسی فضا مکدر ہے۔دن بدن ملک عدمِ استحکام کی جانب گامزن۔مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی۔پٹرول کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ۔آٹا پہلے مہنگا تھا، اب تو نایاب۔ قربانی کے جانور بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور۔بجلی بحران جاری ،گیس غائب،اشیاء ضروریہ کو بھی پَر لگ گئے۔حکمران اتحاد اور ان کے حواری جن نظروں سے ملک کا روشن مستقبل دیکھتے ہیں، پی ٹی آئی بھی ایسے ہی دعوے کرتی تھی۔ ان محلات کی بالکونیوں میں جو بھی بیٹھے گا،اسے چار سو قوسِ قزح کے بکھرے رنگ ہی نظر آئیں گے۔ مہنگائی اور غربت کی معترف پارٹیاں ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی ۔ شاعر مشرق نے فرمایا تھا:نااہلوں کی صحبت اہل کو نااہل بنا دیتی ہے، اگر وہ شعلہ ہے تو گھاس پھونس بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے وہ سیاسی پارٹیاں جو ملکی سیاست میں حصہ چاہتی ہیں ،وہ جلد از جلداس اتحاد سے کنارہ اختیار کریں ۔تاکہ نااہلوں کی صحبت کے رنگ میں نہ رنگی جائیں ۔ ملک بھر میں 24گھنٹے ایک تماشہ لگا رہا، جیسے پنجاب کی پگ کے سوا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔حالانکہ چار سو پھیلی مہنگائی بے روزگاری‘ بداعتمادی اور ہیجان نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا لیکن کسی کو ان 22کروڑ عوام کا احساس ہی نہیں۔سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی جیت ہوئی ،اسے ایک موقع مل گیا۔ چوہدری پرویز الہٰی نے بروقت مستحسن فیصلہ کیا۔ دور اندیش آدمی ہیں ۔انھیں نوشتہ دیوار نظر آ رہا تھا ۔الیکشن کی صورت میں ہار یقینی تھی ۔اب ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار اگر جیت جائیں، جس کے امکانات روشن ہیں۔ ان کی منہ مانگی وزارتیں یقینی۔ساتھ مزید بہت کچھ۔ سود کے مسئلے پر جے یو آئی کا صرف زبانی احتجاج۔مولانا اسد محمود کی اسمبلی میں صرف تقریر۔ان کے ووٹرز شدید غصے میں ہیں۔مگر وہ اقتدار سے بدستور چمٹے ہوئے۔جمعیت علما ء اسلام اگر صرف نام کی ہی لاج رکھ لیتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یہ کیسے اسلام لائیں گے جوسفید اور کالی پٹی والے پرچم کے نیچے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔حالانکہ یہ پرچم تھام کر انہیں مغربی تہذیبی یلغار کے سامنے بند باندھنا چاہیے تھا، وہ اپنے نظریاتی تشخص سے دور ہوتے جا رہے۔اقتدار کی محبت میں قرآن و سنت کے عطا کردہ اصولوں سے فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔جے یو آئی اگر سود کے مسئلے پر جم کر کھڑی ہوتی ،اس ایشو پر اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کرتی ،اس سے نہ صرف ووٹرز میں اس کا قد کاٹھ بڑھنا تھا بلکہ آنے والے وقت میں ووٹرز میں بھی اضافہ ہوتا ۔اگر عمران خاں صرف عدم اعتماد پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو سکتا ہے تو جے یو آئی جس کا اڑوھنا بچھونا اسلام ہے ،وہ سود کے مسئلے پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کیوں نہیں کر سکتی؟ ملکی نظام عدل و انصاف تو پہلے ہی چنیدہ لوگوں کے لئے۔غریب آج بھی کیس دائر کر کے قبر میں اتر جاتا۔اس کی اولادیں مٹی اوڑھ کر سو جاتیں،پوتے فیصلہ لیتے ہیں۔عظیم دانشور نے کہا تھا: جس معاشرے میں انصاف نہ ہو، وہاں ظلم کی سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ دولت کی تقسیم انتہا درجے کی ناہمواری کا شکار۔نظام معیشت سود کی لعنت میں جکڑا ہوا۔خارجہ پالیسی قومی و ملی مفادات کی نگہبانی کی بجائے امریکی اہداف کی آبیاری کر رہی۔باہمی مشورے سے مسائل حل کرنے کی بجائے دوسروں کی خوشنودی کو ذریعہ نجات سمجھا جا رہا ،بے پناہ دولت و ثروت کے باوجود بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔یہ سب کچھ نااہل سیاسی قیادت کی بدولت ۔اگر حکمران اچھا ہو تو ماضی کا سارا گند صاف کیا جا سکتا ہے۔ سلیمان بن عبد المالک دو کارناموں کی وجہ سے تاریخ اسلام میں درخشندہ ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔پہلا اس نے حجاجی دور کے اثرات کو مٹانے کی پوری سعی کی ،دوسرا عمر بن عبدالعزیزؓ کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ سلیمان بن عبد المالک نے تخت نشین ہونے کے فوراً تقریر کرتے ہوئے کہا تھا : ’’دنیا فریب اور باطل کا گھر ہے۔ رونے والے کو ہنساتی ہے اور ہنسنے والے کو رلاتی ہے۔ بے خوف کو خوف زدہ کرتی ہے اور خوف زدہ کو امن دیتی ہے۔ دولت مند کو محتاج بناتی ہے اور محتاج کودولت مند۔ کتاب اللہ کو اپنا پیشوا بنائو اور اس کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرو۔ قرآن شیطان کے مکر کو اسی طرح کھول دیتا ہے جس طرح صبح صادق کی روشنی رات کی تاریکی کو دور کرتی ہے۔‘‘ حجاج بن یوسف نے ظلم سے حکومت کی۔ خون ریزی کو مشغلہ بنایا۔سلیمان نے اس کی رسومات بد کا صفایا کیا ۔مگر عمر بن عبد العزیز ؓ نے تو عمرفاروقؓ کے دو رکی یادیں تازہ کر دیں۔ حالانکہ ان کے سامنے بھی کئی مسائل پہاڑ بن کر کھڑے تھے ۔سلیمان بن عبد المالک کی تجہیزو تکفین کے بعد شاہی سواری پیش کی گئی ۔آپ نے خچر کوپسند کیا ۔قیمتی لباس پہننا چھوڑ دیا ،بدن سے خوشبو دھو ڈالی ۔ جب حکمران انصاف سادگی اور انصاف پسند ہو گا تو ہی رعایا اس راستے پر چلے گی ۔اگر حکمران اقتدار سنبھالتے ہی مفلوک الحال قوم کے ٹیکسوں کے پیسوں سے سوئنگ پول پر کروڑوں پیسے لگا دے ۔جہاز بھر کر عمرے پر چلا جائے ،اگلے لمحے درجنوں رفقا کے ہمراہ برطانیہ اور ترکی چلا جائے۔ تب وزیر خارجہ یورپ کی سیاحت پر چل نکلے گا۔ اتحادی من پسند کے فیصلے کریں گے ۔دعوی سادگی کا کیا جائے گا۔سوالات تو لامتناہی ہیں ۔مگر یہاں کوئی جواب دینے والا نہیں ۔ہم پہم اندھی کھائیوں کی طرف لڑکتے جا رہے ہیں ۔ہاتھ باگ پر ہے نہ پائوں رکاب میں ۔ستم یہ ہے کہ رہنمایان قوم اسے بھی ابھرتا اور آگے بڑھتا پاکستان قرار دے رہے ہیں ۔ سید سلیمان ندوی ؒ نے کہا تھا :نااہلوںکو زبردستی علم یا حکومت کا لباس پہنا دینا بالآخر خود انھیں اور پوی قوم کے حق میں مضر ہوتا ہے ۔