8فروری کو ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف کے بعد ن لیگ دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کے پاس سیٹوں کی تعداد 80کے قریب ہے، ویسے تو اکثریت تحریک انصاف کی ہے جس کے پاس سیٹوں کی تعداد 97ہے، لیکن وہ اپنے ساتھ نہ تو پیپلزپارٹی کو ملانے کا ارادہ رکھتی ہے، نہ نواز لیگ اور نہ ہی ایم کیو ایم۔ اس لیے وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ۔ لہٰذاپیچھے بچتی ہیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی۔ خیر وہی ہوا جس کی اُمید کی جا رہی تھی کہ ایک بار پھر 16مہینے والی حکومت بن گئی ہے۔ اب جب کہ ن لیگ وفاق میں حکومت بنا رہی ہے تو اُس کے پاس ایک بار پھر موقع ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی ساکھ بہتر کرنے کی آخری کوشش کر لے۔ اپنی جماعت ہی میں موجود ایسے لوگوں کو سامنے لائے جو واقعی اس قابل ہیں۔ ان میں مصدق ملک، ملک احمد خان، مریم اورنگ زیب، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، شاہدخاقان عباسی(حالانکہ وہ ن لیگی قیادت سے ناراض لیکن وفادار بھی ہیں) وغیرہ نمایاں ہیں۔ 23 جولائی کو ملک بھر سے مدیرانِ جرائد، سینئر اخبار نویس، کالم نگار، تجزیہ کار اورالیکٹرانک میڈیا کے ممتاز اینکر پرسنزانرجی کے مسائل اور ان کے حل کے لیے حکومتی پالیسی پر بریفنگ کے لیے مدعو تھے۔ وزیراعظم نے مہمانوں کا خیر مقدم کرنے کے بعد ’’فلور‘‘ مصدق ملک کے حوالے کیا۔ مصدق ملک نے انرجی کرائسس اور اس کے حل کے لیے حکومتی اقدامات پر سلیس اور رواں اردو میں یوں بریف کیا کہ مدیران کے لیے یہ سب کچھ ایک دلچسپ کہانی بن گیا۔ ایک اُکتا دینے والے موضوع پر اپنی قومی زبان میں ایسا شستہ اور سلیس اظہارِ خیال کیا کہ جس کی ایک ٹیکنو کریٹ سے توقع نہیں تھی۔پھر اُس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انہیں اپنا ترجمان مقرر کردیا تو یہ بات بھی حیرت کا باعث تھی۔ عمران خاں اور طاہرالقادری نے ملک میں سیاسی بحران کی فضا پیدا کردی تھی۔ حکومت ورثے میں ملے گوناگوں مسائل سے نمٹنے میں مصروف تھی کہ اسے نئے سیاسی مسائل نے آلیا جس میں میڈیا کا محاذ بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ کیا ایک ٹیکنو کریٹ(انرجی ایکسپرٹ) اس عالم میں وزیراعظم کی ترجمانی کا حق ادا کرپائے گا؟ یہ وزیراعظم کے ’’حسنِ انتخاب‘‘ کا امتحان تھا۔لیکن مصدق ملک اُس وقت بھی تمام اُمیدوں پر پورا اُترے۔ اُن کے بعد نام آتا ہے ، ملک احمد خان کا تو ملک صاحب یقینا سافٹ مزاج کی شخصیت ہیں۔ وہ خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ یا عطاء اللہ تارڑ کی طرح متنازعہ شخصیت نہیں ہیں۔ بلکہ ملک صاحب نے پی ڈی ایم کی سابق حکومت کے دوران جب مہنگائی نے عوام کو دھر لیا تھا، اُس وقت قصور (کھڈیاں) میں ن لیگ کا بڑا جلسہ کرکے کھائی میں گرتی ن لیگ کو سہارا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک احمد خان پڑھے لکھے ہیں، اُن کا خاندانی بیک گرائونڈ بھی سیاسی ہے، وہ ایچی سن کالج میں پڑھتے رہے ہیں، انہوں نے 1998ء میں ایل ایل بی آنرز کی ڈگری بکنگھم یونیورسٹی سے حاصل کی اور وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ وہ عام انتخابات 2018ء میں اسمبلی کے تیسری بار رکن منتخب ہوئے ، اس کے بعد اب وہ 2024ء میں چوتھی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کے والدمحمد علی خان، 1972ء سے 1977ء کے دوران رکن پنجاب اسمبلی رہے، 1985ء سے 1994ء کے دوران بطور سینیٹر انہوں نے 1986ء سے 1988ء کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ملک احمد خان کے ماموں حاجی سردار خان تین دفعہ ایم پی اے رہے، دوسرے ماموں ملک رشید احمد خان مسلسل تیسری دفعہ ایم این اے ہیں جبکہ اُن کے کزن احمد سعید خان بھی قصور کے ایم پی اے ہیں۔ مطلب ! اُن کا خاندان سیاست میں دہائیوں سے حصہ لیتا رہا ہے۔ تبھی وہ کھڈیاں جیسے شہر میں اتنا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ ن لیگی قیادت اُن پر اتنا یقین کرتی ہے کہ ن لیگ نے حالیہ الیکشن مہم میں اپنا آخری جلسہ کھڈیاں میں رکھا۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی مہم کا اختتام اپنے ہیڈکوارٹر ضلع میں رکھتے ہیں ۔ شاید ملک احمد خان اور اُن کا حلقہ ن لیگ کی نظر میں بہترین چوائس تھے۔ پھر آپ مریم اورنگ زیب کی بات کریں، خواجہ سعد رفیق کی بات کریں یا اُن کے بھائی کی تو یہ لوگ واقعتا ن لیگ کے وفادار ہیں۔ انہیں عوام کی فکر ہے، حالانکہ سعد رفیق اپنی پارٹی سے خفا خفا نظر آتے ہیں مگر وہ اختلاف رائے ہے، جو کسی بھی سیاسی رہنما کو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ موروثیت نے ان کا دل توڑ دیا ہے ، اس کے علاوہ مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔حالانکہ مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینجرکے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟ بہرحال مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا،،، لیکن حکومت تو بالآخر اُنہیں مل ہی گئی ہے۔ میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ قصہ ماضی بن جاتی ہے۔لہٰذان لیگ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ کی حد تک نہ رکھے، اُنہیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائے، روز گار کے مواقع فراہم کرے۔ میرے خیال میں ن لیگ کو ایسے ہی مذکورہ بالا قائدین کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنمائوں کی ضرورت ہے جو ن لیگ کی باگ ڈور سنبھال سکیں، ایسے رہنمائوں کی ضرورت نہیں جو براہ راست ’’فلائیٹ‘‘ سے اترتے اور جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی لوگ باتیں سننا تو دور کی بات چہرہ دیکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یقین مانیں اس وقت کی صورتحال کے مطابق دیگر جماعتیں ن لیگی رہنمائوں کو نفرت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں، اس کی وجہ 9مئی جیسے واقعات ہوں یا بدلے کی سیاست لیکن یہ ہر جماعت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ اسی سے نکلنے کے لیے میرے خیال میں ن لیگ کو علاقائی سیاست کوفروغ دینا ہوگا۔ بہرکیف ن لیگی قائدین کو اپنے اوپر لگے مہنگائی کے داغ دھونے کے لیے کچھ کرنا ہوگا، عوام میں جانا ہوگا، بدلے کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ بلکہ 9مئی کے حوالے سے گرفتار سیاستدان اور کارکنان کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہوگا۔ کیوں کہ عوام یہ جانتے ہیں کہ عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی، صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں ان سے کیوں نہ معیشت سنبھل سکی؟ اور اب بھی اگر اُنہیں خزانے کا شعبہ دینا ہے تو پھر بقول شاعر ذرا سنبھل سنبھل کر ہی چلنا ہوگاکہ جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا