تاریخ اپنا ورق الٹنے والی۔ اگلے ڈرامے کے سب کردار نئے ہوں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ لانگ مارچ کا انجام کیا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ، عمران خاں، شہباز شریف اور آصف علی زرداری سبھی نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں۔حتیٰ کہ مولنا فضل الرحمن نے بھی۔ عمران خاں نے اعلان توکیا ہے کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔میرے خیال کے مطابق یہ سب اسلام آباد پہنچنے پر منحصر ہو گا۔حاضرین کی تعداد دیکھ کر،فیصلے ہوں گے ۔جلسہ گاہ تک محدود رہیں یا شاہراہِ دستور پہ یلغار کریں۔ لوٹ جائیں یا جمے رہیں۔دلوں کے بھید اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔لانگ مارچ کا فیصلہ تو چند ماہ قبل ہی کر لیا گیا تھا ،جب تخت پنجاپ پرچوہدری پرویز الہٰی براجمان ہوئے تھے۔لیبرٹی مارکیٹ سے شروع ہونے والے مارچ میں لاہوریوں نے بڑے جوش و جذبے سے شرکت کی۔درتا دربا پہنچتے چار سُو اندھیرا گہرا ہو چکا تھالیکن لاہور تو زندہ دلوں کا شہر ہے،اس نے کپتان کے ساتھ محبت کی ۔شاہدرہ سے آگے مجمع مزید زیادہ ہو ا۔مہلت مقرر ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں رقم ہے: جہاں جہاں تمہیں رکنا اورٹھہرنا ہے اور جہاں تمہیں پہنچنا ہے ، ہم جانتے ہیں۔وزیر اعظم نے پہلے لانگ مارچ کا تمسخر اڑایا ،بعدازاں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ۔جس نے میڈیا پر آ کر کہا کہ لانگ مارچ میں صرف 10سے 12ہزار افراد شامل ہیں ،جب اتنی کم تعداد ہے تو پھر کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں پہنانے والی بات ہے۔جلد الیکشن کروا کرملکی استحکام کی بات کی جائے تو حکومتی ارکان بھڑک اٹھتے ہیں۔ماضی کی تاریک شب میں چھپ چھپ کر ملاقاتیں کر کے اقتدار حاصل کرنے والے اب کیسے الیکشن کروا سکتے ہیں ؟اگر موجودہ حکومت نے ڈیلور کیاتو تو عمران خاں کب کا بھلایا جا چکا ہوتا ۔یہاں مہنگائی نے غریبوںکی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں ۔ عوام کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت ہو چکا۔ کوئی دن جاتا ہو گا جب حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی ضروری چیزکی قیمت میں اضافے کا اعلان نہ ہوتا ہو جو عوام کی تکلیف میں مزید اضافہ کا سبب نہ بنتا ہو۔ آٹا، چاول، دال، گھی، تیل، گوشت، سبزی غرض روز مرہ استعمال کی کوئی شے بھی اب عوام کی دسترس میں نہ رہی ہے۔ لوگ غربت سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ آج جتنے پیسے گھر میں آتے ہیں ،اس حساب سے سوچنا پڑتا ہے، پہلے سو روپے کی بڑی حیثیت ہوتی تھی، اب وہی سو روپے کا نوٹ ایسے خرچ ہوجاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ جس حساب سے مہنگائی ہو رہی ہے، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ دال چاول کھانا بھی بہت مشکل بن جائے گا۔ یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ آمدنی بڑھانے سے کہیں زیادہ اہم کام اخراجات میں کمی ہے۔غریب طبقہ تو اس سے پریشان ہے ہی، متوسط طبقہ بھی بری طرح متاثر ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ایک بار سیدنا عمر بن خطابؓکے دورِ خلافت میں گوشت کی قیمت میں حد درجہ اضافہ ہوگیا۔ لوگ گوشت کی گرانی کی شکایت لے کر عمر فاروقؓ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ ؓنے ان کی بات سننے کے بعد کہا’’ اگر اس کا بھائو چڑھ گیاہے تو کم کردو‘‘۔ لوگوں نے کہا’’ ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں ہے کہ ہم اس کی قیمت کم کردیں ؟‘‘ عمر ؓ نے فرمایا: کہ دراصل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کا استعمال کم کردو، کیونکہ جب اس کا استعمال کم ہوجائے گا، تو اس کی قیمت بذاتِ خود کم ہوجائے گی۔سیدناعلیؓ کے زمانہ خلافت میں مکے کے اندر کسی موقعے سے (کشمش) کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے خط لکھ کر کوفے میں موجود علی بن ابی طالبؓؓسے اس کا شکوہ کیا۔ تو انہوں نے یہ رائے تجویز فرمائی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو کیونکہ جب ایسا کروگے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گرجائے گی اور وہ سستی ہوجائے گی۔ اگر سستی نہ بھی ہوتو کھجور اس کا بہترین متبادل ہے۔ یہ متبادل طریقے تو موجود ہیں ،لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے ،متبادل چیزوں کے دام بھی آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ مہنگائی پرچنداقدام سے قابو پایا جا سکتا ہے۔مانگ کو گھٹانا۔ مانگ بڑھنے پر قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور مانگ گھٹنے پر کمی آجاتی ہے۔ لہذا دانستہ طور پر اشیاء اور خدمات کے ڈیمانڈ (Demand) کو قابو کرکے رکھنا چاہیے۔ یہ عمل مہنگائی پر قابوہے۔اشیاء وخدمات کی پیداوار جب بڑھ جاتی ہے تو قیمتیں گرنے لگتی ہیں، برعکس اس کے سپلائی میں کمی واقع ہوجانے پر قیمتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لہذا سپلائی میں اضافہ کی متواتر کوششیں ہوتی رہنی چاہیے، زراعت وصنعت اور معدنیات کے پیداوار میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں سادہ زندگی آسودگی پر زوردیا جاتا تھا۔ اس کے تحت لوگ بیجا طور پر اپنی ڈیمانڈ نہیں بڑھاتے تھے۔ مگر مغربی تہذیب کے ’’ کھاؤ، پیوموج کرو‘‘ کے اصول نے ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کیاہے، آگ میں کا کام اشتہار بازی نے کردیا ہے۔حکومت ایسا کر سکتی تھی لیکن اس نے صرف اپنے مقدمات ختم کروانے پر زور رکھا ہے ۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں کوئی ایک بھی قانون سازی عوامی مفاد کے لیے نہیں ہوئی ،اسی بنا پر آج لانگ مارچ کامیاب ہو تا نظر آرہا ہے ۔