بھارتی شہر گوا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا، لیکن اس اجلاس میں تعمیری امور کی بجائے الزامات اور جوابی الزامات کی گونج زیادہ سنائی دی۔ عجب بات ہے کہ بھارت میں انتہاء پسند جماعت برسراقتدار ہے اور اس جماعت کے کھاتے میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جڑے ہیں، اس کے باوجود بھارتی قیادت دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور آج بھی پاکستان دہشت گردی کے نتیجے میں میتیں اٹھا رہا ہے ۔ بھارت کو الزامات کی بجائے حقائق کا سامنا کرنا چاہئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھارت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ نہ کرے اور اگر واقعی سنجیدہ ہے تو پھر مل کر اقدامات کرے۔ بھارت سے واپسی پر بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت جاکر بے جے پی، ہندوتوا اور آر ایس ایس کے حوالے سے دنیا کو حقیقت بتائی اور ان کا اصل چہرہ سامنے لایا، بے جے پی کا بس چلے تو وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک تنظیم نے میرے سر کی قیمت مقرر کی ہے جسے سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں جس جماعت نے بلاول بھٹو زرداری کے سر کی قیمت مقرر کی کیا بھارتی حکومت نے اس کے خلاف ایکشن لیا؟ کہنے کو بھارت خود کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہلواتا ہے اور خود کو قانون پسند بھی کہتا ہے مگر دہشت گردی اور انتہاء پسندی اور اقلیتوں کے حقوق کے معاملے میں بھارت کا کردار سب کے سامنے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ کے دوران بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے ہاتھ نہ ملانے کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور بھارتی ہم منصب کے درمیان مصافحہ نہیں ہوا اور جے شنکر نے دونوں ہاتھ جوڑ کر’’نمستے‘‘ کیا جس کا جواب وزیر خارجہ نے بھی اسی انداز میں دیا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گوامیں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ سے آن کیمرا ہاتھ ملانے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھارتی وزیر سے ہی پوچھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے سلام کیا گیا، ہم بھی سندھ اور ملتان میں اسی طریقے سے سلام کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا ہے کہ سندھ اور وسیب کے لوگ ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی محبت کا اظہار عاجزی اور انکساری کے ساتھ کرتے ہیں ۔ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فریدؒ نے بھی اپنے کلام میں ’’عجز نیاز اساڈی مُڑی ‘‘ کہہ کر یہ بات ثابت کی کہ عاجزی اور انکساری ہماری میراث ہے، اس بناء پر وزیر خارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ میرے لیے خوشی کی بات ہے ہم نے ایک ہی طریقے سے ایک دوسرے سے سلام کیا۔ جہاں تک بھارتی وزیر خارجہ کے ہاتھ نہ ملانے کی بات ہے تو یہ اس کا ظرف ہو سکتا ہے کہ وہ میزبان تھا اُسے اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، دراصل مشرقی اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ مغربی تہذیب میں تکبر اور مشرقی تہذیب میں عاجزی اور انکساری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ سے جو اچھی بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ انہوں نے اجلاس کے دوران کشمیر کے مسئلے کو فراموش نہیں کیا۔ وزیر خارجہ نے بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارت کی سرزمین پر کشمیر کاز کو اجاگر کیا۔کشمیری رہنما عبدالحمید لون نے کہا ہے کہ پاکستان کے کشمیر پر دو ٹوک موقف سے عوام خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھا رہا ہے ، گزشتہ روز بھی مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز نے مزید دو کشمیری نوجوانوںجعلی مقابلے میں شہید کر دئیے۔طویل عرصہ سے کشمیری نوجوانوں کو نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران شہید کیا جا رہا ہے ، قابض بھارتی فورسز چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر خواتین سے بدتمیزی اور توڑ پھوڑ کرتی ہے اور کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر کے لے جاتی ہے اور ان کو جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا جاتا ہے ۔ ایک عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں کا محاصرہ جاری ہے ، لوگوں کو سختی سے گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند ہے، نام نہاد سیکورٹی آپریشن میں ڈرونز اور گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں، قابض بھارتی فوج چار روز میں 6 کشمیری نوجوانوں کو شہید کرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کا کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کشمیر کے معاملے پر اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے، ایک انٹرویو میں را کے سابق سربراہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد مقامی افراد کررہے ہیں، اس میں کسی ملک یا ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہے، را کے سابق سربراہ نے کہا کہ بھارتی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول کے مطابق دکھانے کا مقصد ایک متنازع علاقے میں جی 20 کانفرنس منعقد کرنا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سری نگر اور دیگر علاقوں میں پوسٹر چسپاں کئے گئے ہیں کہ گروپ 20 ممالک مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کا بائیکاٹ کریں۔ یہ سب کچھ دکھاوے کے طور پر کرنے کا پلان ہے جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایک عرصہ سے کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، اب تک لاکھوں کشمیری اپنی جدوجہد آزادی میں شہید ہو چکے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ رہنے کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں۔ سکھوں کا کشمیر پر قبضہ غاصبانہ تھا کشمیریوں نے سو سوا سو سال پہلے عذاب بھگتا ، تقسیم کے بعد کشمیری خوش تھے کہ اب ان کو ظلم سے آزادی ملے گی مگر کشمیر کے سکھ مہاراجے کے غلط فیصلے کی وجہ سے کشمیری مسلمان گزشتہ پچھتر سالوں سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری آنکھ کھولے اور کشمیر کو اس کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دلوائے یہی مسئلہ کا کشمیر کا حل ہے۔