نیب ترمیمی آرڈیننس پر تنقید تو بہت ہوئی، سپریم کورٹ جانے کا اعلان بھی ہوا، اسے حکومت کی جانب سے حکومت ہی کے لیے این آر او بھی قرار دیا گیااور اب تنقید کرنے والے ہی فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں سب سے آگے کھڑے ہیں۔ رمضان شوگر مل کیس میںحمزہ شہباز شریف نے نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کو بنیاد بنا کر نیب عدالت میں بریت کی درخواست دائر کر دی ہے۔ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رمضان شوگر ملز کے لیے بنایا گیا گندہ نالہ سرکار کا منصوبہ تھا، جس کی کابینہ نے منظوری دی، اسمبلی سے پاس ہوا، بجٹ میں شامل کیا گیا ،ترقیاتی سکیم کا حصہ بنا اور یوں اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا۔ حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ نئے آرڈیننس کے مطابق کوئی بھی منصوبہ جوکابینہ اور حکومت کی طرف سے بنایا یا منظور کیا گیا ہو ، اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ لہذا 6 اکتوبر کو لائی گئی دوسری اور 30 اکتوبر کو لائی گئی تیسری ترمیم کی روشنی میں حمزہ شہباز کو اس کیس میں بری کر دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رمضان شوگر مل کیس میں دو ہی ملزم ہیں، شہباز شریف اور حمزہ شہباز۔ ان میں سے حمزہ شہباز نے خود تو بریت کی درخواست دائر کر دی اور کیس کا سارا وزن اپنے والد شہباز شریف پر ڈال دیا۔ اب فرض کیجیے حمزہ شہباز کی درخواست ما ن کر انہیں بری کر دیا جاتا ہے تو شہباز شریف اس کیس میں تنہا ملزم رہ جائیں گے۔ اس کے بعد ایک اور سوال پیدا ہو گا کہ جیسے حمزہ نے نئے نیب آرڈیننس سے فائدہ اٹھا کر بریت حاصل کرنے کی کوشش کی کیا اس کے بعد شہباز شریف بھی بیٹے کی تقلید کرتے ہوئے ایسا ہی کریں گے؟ کر تو سکتے ہیں ،ایک قانون اگر حمزہ کو فائدہ دے سکتا ہے تو شہباز شریف کو فائدہ کیوں نہیں دے سکتا۔سال 2021کے اوائل میں جب منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز نے ضمانت کی درخواست دائر کی تھی تو صحافی شہباز شریف اور ان کے وکلاء سے سوال کرتے تھے کہ وہ ضمانت کی درخواست دائر کیوں نہیں کرتے ۔ ان کے وکلاء کی جانب سے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ پہلے حمزہ کی ضمانت ہو جائے پھر اسے مثال اور بنیاد بنا کر شہباز شریف کی درخواست ضمانت دائر کی جائے گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔ حمزہ کو ضمانت ملی تو شہباز شریف کی درخواست دائر ہوئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے سامنے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ اسی کیس میں حمزہ کو بھی ضمانت مل چکی ہے لہذا شہباز شریف کو بھی ضمانت دی جائے۔ دلیل مان لی گئی ، شہباز شریف کو بھی ضمانت مل گئی۔ اب بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ عدالت نے حمزہ شہباز کی جانب سے بریت کی درخواست پر نیب سے جواب طلب کر لیا ہے ۔ اگر انہیںنئے نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے بریت ملتی ہے تو امکان ہے کہ شہباز شریف بھی اسی بنیاد پر بریت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں اصولی موقف کی پاسداری کا سوال ہمارے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ نئے ترمیمی آرڈیننس کو حکومت کے لیے این آر او قرار دینے والے کس حوصلے اور بے باکی سے اسی قانون سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اب اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ آخر کیوں بار بار شور مچانے کے باوجود اپوزیشن نے اس قانون کو عدالت میںچیلنج نہیں کیا تھا۔ اپوزیشن کو اندازہ تھا کہ یہ آرڈیننس ان کے فائدے کی چیز ہے۔ شور مچانا سیاسی مجبوری تھی اور فائدہ اٹھانا قانونی عمل۔ حمزہ شہباز سے پہلے آصف زرداری بھی اسی نئے ترمیمی آرڈیننس کی ایک دوسری شق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر چکے ہیں ، انہوں نے جعلی اکائونٹس کیس میں موقف اختیار کیا تھا کہ نئے آرڈیننس کی روشنی میں جعلی اکائونٹس کا معاملہ پرائیویٹ بزنس کا معاملہ ہے اور اب پرائیویٹ بزنس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ آصف زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کی ن لیگ نے اس آرڈیننس کے بعد میڈیا پر پریس کانفرنسز کرتے ہوئے اسے حکومتی شخصیات کے لیے این آر او قرار دیا تھا اور اب وہ خود یہ این آر لینے پر آمادہ ہیں ۔ رمضان شوگر مل کے گندہ نالہ کیس میں تو شاید شریف خاندان کو نئے آرڈیننس کے روشنی میں ریلیف مل جائے لیکن دوسری طرف ایف آئی اے نے چار ہزار صفحات اور سات والیومز پر مشتمل چالان عدالت میں جمع کرا دیا ہے ۔اس کیس میں شہباز شریف اور حمزہ مسلسل ضمانت پر چلے آ رہے ہیں ۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ن لیگ موقف اختیار کرتی ہے کہ یہ سب حکومت کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے کہنے پر ایف آئی اے ،نیب اور دیگر ادارے شریف خاندان کے خلاف فرضی کہانیاں بنا رہے ہیں ۔ لیکن چالان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایسانہیں ہے۔ نیب اور ایف آئی کے پاس منی لانڈرنگ کے جو ثبوت موجود ہیں ان میں کئی نجی بینکوں کے ساتھ ہونے والی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ نجی بینک حکومت کے ماتحت نہیں آتے ۔ اب اگر ایک بینک میں ٹی ٹی بھیجی گئی ہے اور بینک کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے اور بینک کے مینیجر بطور گواہ چالان کا حصہ ہیں تو یہ محض فرضی کہانی نہیں ہو سکتی۔ اگر ٹرانزیکشن ہوئی ہے تو ہوئی ہے اور اگر نہیں ہوئی ہے تو نجی بینک محض حکومتی دبائو پر اسے چھ یا آٹھ سال پہلے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنا سکتے۔ لہذا منی لانڈرنگ کے ان کیسز میں شہباز شریف فیملی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو ان کیسز کو التوا میں ڈالتے رہیں جب تک کہ ان کی اپنی حکومت نہ بن جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ نیب اتنے ثبوت ہونے کے باوجود خود بھی زیادہ متحرک دکھائی نہیں دتا اور تاخیری حربوں کا موثر توڑ لے کر نہیں آتا۔اس کے باوجود عدالت میں جمع کرائے گئے ثبوتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کا اس کیس سے یوں بچ نکلنا مشکل ہے ۔ ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس لے کر آئے جس کی روشنی میں ماضی کی تمام منی لانڈرنگ کو قانونی تحفظ یا استثنیٰ دے دیا جائے اور حمزہ شہباز اُس نئے آرڈیننس کی روشنی میں بریت کی ایک اور درخواست دائر کر دیں ۔