لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے لگتا ہے محبوب کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گیا ہے۔ ویسے یہ بھی عجب یار ہے کہ عاشق اور محبوب کا منصب بدلتا رہتا ہے۔ وہ جو کل محبوب تھا آج وہ عاشق کو منا رہا ہے تو جگہ بدل چکی ہے۔ یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے کہ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہوگیا۔ بہرحال بات ایسی بتانے کی نہیں دنیا کو۔ روپڑے ہم بھی خریدار تک آتے آتے۔ اور پھر ہاتھ رکھنا پڑا سینے پہ ہمیں بھی آخر دل کہاں رہتا ہے دلدار تک آتے آتے۔ اب ہمارے عمران خان بڑے ہی پیار پیارے اور نیارے بیان دے رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف سے وہ پرامید ہیں اور فرماتے ہیں کہ قوم ساتھ ہو تو فوج مضبوط ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کا پیغام کوئی زیادہ الجھا ہوا نہیں۔ کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ فوج کو قوم کی ضرورت ہے اور قوم اس وقت خان صاحب کے ساتھ ہے۔ یقینا جواباً کوئی کچھ نہ کچھ تو سوچے گا کہ ہو محبت تو ٹپک پڑتی ہے آنکھوں سے۔ اے میرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ جنرل عاصم حافظ قرآن ہیں اور ان کی بڑی تعریف سنی ہے۔ چلیے یہ بھی تو تعریف کرنے کا ایک انداز ہے۔ خان صاحب نے امر بالمعروف کرتے ہوئے جنرل صاحب کو امر بالمعروف کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ملک کا سوچنے کو کہا ہے۔ ظاہر ہے جنرل عاصم صاحب فوج کی کمانڈ سنبھالے ہوئے ہیں اور دشمن پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہی ان کا منصب ہے اور اسے زیادہ سوچنے کو کیاہے۔ اپنے دوست مرحوم ناہید شاہد کا شعر یاد آ گیا: میرے بدن پر غموں کا لباس رہنے دے میں اپنے گھر میں ہوں مجھ کو اداس رہنے دے ملکی حالات پر بات کرنے سے پہلے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عسکری تبدیلی کے ساتھ دشمن کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلاتا ہے ابھی دیکھئے ناں چمن میں افغان گولہ باری سے چھ شہری شہید ہو چکے اور 17 زخمی ہیں۔ سرحد بند کردی گئی ہے علاقے میں خوف ہراس ہے۔ فوج کی ذمہ داری ہے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا۔ یقینا فوج ہی اسی صورتحال کو سنبھالتی ہے جو کہ فرض کی حیثیت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں قوم کہاں پیچھے ہٹے گی۔ سیاسی صورتحال بھی بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ مثلاً صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ عمران خان اسمبلی میں واپس آ جائیں۔ سب سے اچھا اور صائب مشورہ ہے۔ میدان میں رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور پھر طاقتوروں کے ساتھ بھی تو آپ ہی نے تعلقات خراج کئے۔ تم نے روکے محبت کے خود راستے۔ اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں۔لانے والے کارکردگی بھی دیکھتے ہیں کہ ہر صورت میں عوام کومطمئن کرنا ضروری ہوتا جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی بتا دیں۔ میرا خیال ہے کہ خان صاحب اب درست سمت پر اور صحیح جگہ آ گئے ہیں کہ ایک دو وہ انٹرا پارٹی الیکشن کرا رہے ہیں مگر اس سے بھی پہلے انہیں کچھ نہ کچھ تنظیم سازی کا سوچنا چاہیے۔ تنظیم سازی سے مجھے طلال چوہدری یاد آ گئے کہ وہ بھی بڑی سھنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے گورنر سے مل کر وزیراعظم سے ملاقات بھی کی ہے۔ علاوہ ازیں ن لیگ نے بھی اضلاع میں کنونشن شروع کردیئے ہیں۔ یقیناً خان صاحب نے انہیں فکر مند تو کر دیا ہے کہ انہوں نے عوام کو کچھ بھی ریلیف نہیں دیا ہے بلکہ مہنگائی تیس فیصد سے اوپر جا چکی ہے۔ جو بھی عوام پر کام کرے گا فائدے میں رہے گا۔ وجہ یہ کہ لانگ مارچ اور احتجاج ایک حد تک تو اچھا لگتا ہے مگر جب عوام تنگ آ جائے تو مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے عمران خان نے ہدایات بدل دی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کو نظر اٹھا کر کسی اور جگہ رکھنی ہوگی۔ وہی جو ہیر رانجھے کا ڈائیلاگ ہے کہ منور ظریف کو رانجھے پر نظر رکھنے کو کہا گیا تو اس نے کہا ایہہ کیہڑی گل اے اساں ہیر توں اکھ چک کے تے رانجھے تے رکھ دینے آں۔ یعنی ہیر سے آنکھ اٹھا کر رانجھے پر رکھ دیتے ہیں۔ خان صاحب سنجیدگی سے پارٹی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان پر نہ مشکل گھڑی ہے ۔ اب تو وفاقی وزیر طنزاً پوچھنے لگے ہیں کہ کیا خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کردیں؟ وہ تو پرویزالٰہی کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر وہ ایسا کردیں تو وزیراعلیٰ وہی رہیں گے مگر سیاست میں سب جانتے ہیں کہ رات گئی تو بات گئی۔ صرف پرویزالٰہی نہیں اسمبلی میں کئی پرویزالٰہی ہیں۔ سچی بات تو یہ کہ خان صاحب کا کام بڑھتا جا رہا ہے ۔ اب دیکھئے ناں کہ رانا ثناء اللہ کا منشیات کا کیس عدالت نے ختم کر دیا ہے وہ باعزت بری ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ سلمان شہباز کا واپس آ جانا حالات کی غماضی کر رہا ہے کہ سب سکھ چین ہے لیکن ابھی تک بھی نوازشریف واپس نہیں آ رہے بلکہ کچھ بڑے لوگ ان سے ملنے لندن جا رہے ہیں۔ یا پھر سارے حالات ان کے آنے سے پہلے ٹھیک کئے جا رہے ہیں۔ نوازشریف تو کہہ رہے ہیں کہ آئندہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہاں جب معاملات ٹھیک ہونے پر آتے ہیں تو ہر طرف سے فیور ملتی جاتی ہے۔ سیاست میں لچک ضروری ہے مگر لچک بھی اس وقت جب اس کی ضرورت ہو۔ شنید ہے کہ اب چوہدری شجاعت نوازشریف سے ملنے لندن جائیں گے۔ ظاہر کچھ اپنی زبان میں انہیں سمجھائیں گے۔ دوریوں کا بڑھنا اور قربتوں کو عنقریب ہو جانا بھی کھیل ہی کا حصہ ہے۔ جو بھی اصل مقابلہ پی ٹی آئی کا ن لیگ ہی سے ہے اور وہ بھی خان صاحب پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی میں سعد رفیق کا بیان دیکھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ خان صاحب کا نئے سیٹ اپ سے امید رکھنا شرمناک بات ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دشمن بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ