اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے اس کو دیکھو کہ وقت رخصت بھی کاجل آنکھوں میں ڈال آیا ہے خوبصورتی بڑھ جائے تو وہ بھی اذیت ہے ۔’پھر سے جھٹکا ہے میں نے سر اپنا پھر اسی کا خیال آیا ہے‘ عمر خوش فہمیوں میں گزری ہے، خوش گمانی کا سال آیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ اچھے دن آنے والے ہیں مگر ہر کسی کو اپنی سیاست زندہ رکھنی ہے۔ مہنگائی چلتی رہتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو لبھانے کے لئے ایک آدھ نیا ایشو کھڑا کر دیا جاتا ہے: جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اس سے ہمکلام کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں اب عمران خان کی گرفتاری کی بات چل نکلی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے اندر سے دونوں ڈرے ہوئے ہیں تیسری طاقت یعنی پیپلز پارٹی کہیںنظر نہیں آ رہی۔ عمران خاں کی گرفتاری سے نہ جانے ایک بھولا بسرا گانا کیوں ذھن میں آ گیا۔ اج قیدی کر لیا ماہی نوں میں چھج پتاسے ونڈاں۔اب پتہ نہیں بتاشے بانٹنے کی نوبت آتی ہے کہ نہیں۔ دوسری طرف سائفر آڈیو لیکس کو ن لیگ نے ناقابل معافی سازش قرار دے دیا ہے اور وہ قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں بلکہ وہ انتہائوں پر جا کر آرٹیکل 6کی باتیں کر رہے ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک ایسا نہیں ہو گا کہ پھر نواز شریف بھی زد میں آئیں گے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ ہلکی پھلکی موسیقی ہی چلتی رہے گی اور انتخابات آ جائیں گے۔ عمران خاں تو خاتون جج سے معافی مانگنے پہنچے تھے مگر جج موجود نہیں تھیں ۔اس کیس میں عمران کے وارنٹ جاری ہو ئے ۔لگتا ایسا ہی ہے جیسے یہ 1100وولٹ کو ہاتھ لگانے کے مترادف ہو گا گویا یہ خطرے کا نشان ہے مگر ایک بات میری طرح آپ کو بھی گدگداتی ہو گی کہ قانون ملزموں اور مجرموں میں تفریق نہیں کرتا مگر عملدرآمد کرنے والے بھی انسان ہیں۔ان کے بھی بیوی بچے ہیں۔ جانتے تھے دونوں ہم ان کو نبھا سکتے نہیں اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا وارنٹ گرفتاری کے بعد شبلی فراز نے ایک تصویر ٹویٹ کی ہے جس میں عمران خاں اپنے پالتو کتے کو کھانا کھلا رہے ہیں یہ ایک علاتی تصویر ہے ہر کوئی اس سے اپنے معانی نکالے گا۔ ویسے پی ٹی آئی والے اس حوالے سے منفرد ہیں کبھی ان کے سرکردہ گاڑیوں میں کتے لے کر گھومتے ہیں کبھی واوڈا صاحب ٹی وی میں آ کر میز پر بوٹ رکھ دیتے ہیں یہ سب علامتیں ہیں جس میں کچھ صداقتیں بھی ہیں۔ایسے ہی ایک شاعرہ کا شعر یاد آگیا: آپ کو منہ نہیں لگایا تو آپ بہتان پر اتر آئے عوام کو ان تماشوں سے کچھ لینا دینا نہیں انہیں عمران خاں کی گرفتاری یا آزادی سے کوئی سروکار نہیں وہ دو وقت کی روٹی اور تھوڑا سا سکون چاہتے ہیں۔ خاں صاحب کو گرفتار کرنا کوئی دانشمندی نہیں گرفتاری بھی مشکل ہے اور پھر انہیں چھوڑنے میں زیادہ مشکل پیش آئے گی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی بدگمان یہ کہے کہ اسے گرفتار ہی اس لئے کروایا جا رہا ہے تاکہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو ن لیگ کو چاہیے کہ وہ عمران خاں پراپنا وقت ضائع نہ کرے وگرنہ وہ بھی طعنے دیتے ہی رہ جائیں گے ۔ پورے انہماک سے سیلاب زدگان کو کرب سے نکالیں اور عوام پر جو بجلیاں گرائی جا رہی ہیں اس کا سدباب کریں۔ باقی سیاست تو چلتی رہے گی میں تو طاہر اشرفی کی باتیں سن رہا تھا کہ وہ سلیم صافی کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے مجھے تو ایسا لگا کہ طاہر اشرفی باقاعدہ ایک وعدہ معاف کی طرح بات کر رہے تھے کہ انہوں نے آنکھوں دیکھا منظر بیان کر دیا کہ وہ خان صاحب کے دائیں اور اسد عمر بائیں طرف بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان سوالوں کے جواب بھی دیے جو پوچھے ہی نہیں گئے بات کا طالب لباب یہ ہے کہ خاں صاحب نے کہا کہ ہم اس پر کھیلیں گے ۔بہرحال طاہر اشرفی نے لنکا ڈھانے کی پوری کوشش کرتے رہے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے: کوئی سننے والا ہو آدھی بات بھی پوری ہے طوطے اس کے ہاتھ پہ ہیں جس کے ہاتھ میں چوری ہے آپ دیکھتے جائیں کہ اینکرز بھی کیسے بدلتے ہیں سناریو بدل رہا ہے سب کے قدم سیدھے پڑ رہے ہیں اب خان صاحب کی آخری کال پر بھی عام آدمی حیران نہیں ہوتا ان میں وہ دم خم نہیں۔ کہ ن لیگ نے جارحانہ پالیسی سے پی ٹی آئی کو دفاع پر مجبور کر دیا ہے بات تو رسوائی کی ہے مگر حقیقت یہی ہے۔دوسری طرف سہاگن وہی کہلائے گی جس کا پیا راضی ہو گا۔ اصل میں بڑے سٹیک ہولڈر کا خرچہ اٹھانا کوئی آسان نہیں معاشی صورت حال مضبوط ہو گی تو کچھ کام چلے گا کیوں نہ اپنے پیارے دوست اعظم توقیر کے دو اشعار پڑھا دیے جائیں: جو آیا اسے لوٹ کے جانا ہے بہرکیف تقدیر کا یہ کھیل پرانا ہے بہر کیف یہ ٹھیک ہے یہ تیرا زمانہ ہے بہرکیف ہم کو بھی تو کردار نبھانا ہے بہر کیف ویسے تو سب اپنا اپنا کردار نبھا رہے کچھ دوسروں کا بھی۔ شیکسپیئر نے تو کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہر شخص اپنا کردار نبھاتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔میرا خیال ہے سب سے مشکل کردار عوام کا ہے کہ یہ پیادے ہیں اور اکثر چالوں میں یہی مرتے ہیں۔ کھلاڑی ہمیشہ بادشاہ اور وزیر کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کام آگے چلے لیکن اب تو چال چلنے والے بھی کسی ما ہر کے شاطر کے زیر اثر کھیلتے ہیں: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں