یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئینے کا خیال کیا یہ خیال اور ہے اور اقبال کچھ اور کہہ رہا ہے۔ وہ مقام اور ہے‘ وہ قیام اور ہے‘ وہ دوام اور ہے بلکہ اختتام اور ہے۔ تو بچا بچا نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ۔ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں۔ ہم تو خاک زاد و خاک پہ ٹھہرے مگر یہ دعویٰ بھی باطل ہے۔ اندر سے دنیا دار۔ بھاری پانی کی طرح یا آلودہ ہوا کی طرح۔ کوئی سبک ہو تو اوپر اٹھے۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ یہاں رفع و اعلیٰ خیال کی جگہ نہیں بنتی۔ یہ تو ایسے ہی ایک تخلیقی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وگرنہ ہمارے روز و شب تو ویسے ہی چل رہے ہیں اور ہماری چال بھی وہی ہے بلکہ اپنی چال تک بھولے ہوئے ہیں۔ اب تو گرانی کا تذکرہ بھی گراں گزرتا ہے۔ پچھلے دور میں تو عوام کی چیخیں نکلوائی گئی تھیں اور اب تو چیخنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ حکومت کے لیے معیشت مسئلہ ہے تو عوام کے لیے معاش درد سر۔ وہی عراق والی بات کہ قحط نے جہاں عشق کرنا بھلا دیا تھا۔ حکومت کے لوگ کشکول بدست در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کہیں سے بھیک تو کہیں سے عطیہ۔ سر بھی کشکول نظر آنے لگے ہیں۔ کوئی اعتبار نہیں کرتا کہ ان کے معدے خیرات بھی ہضم کر جاتے ہیں۔ اب تو عمران کے ڈرائے ہوئے ہیں وگرنہ تو یہ حال مست اور مال مست رہتے تھے۔ ایک شادی اور ساتھ پہنچنے کو ایک پل۔ یہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔ ہاں مذاق یہ اس قوم کے ساتھ ہے۔ قدرت کا انتقام ہے۔ اللہ خود کہتا ہے کہ وہ مجرموں سے انتقام لیتا ہے۔ بعض اوقات تو بالکل ہی بے آواز ہوتا ہے۔ بندے کی مت ہی مار دیتا ہے۔کل ہی حفیظ اللہ نیازی کو سن رہا تھا کہ وہ جھنجھلا رہے تھے کہ ن لیگ کی سیاست کدھر آ گئی ہے۔ نوازشریف نے اپنی چالیس سالہ سیاست پر پانی پھیر دیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی سیاست نہیں تھی کہ آپ جیلانی سے کاروبار کر کے آئے اور پھر جونیجو جیسے محسن کو کارنر کر دیا۔ یہ تو ایک حوالہ ہے وگرنہ کون سا کام آپ نے مفاد کے لیے نہیں کیا۔ ہاں اگر محسن کشی سیاست ہے تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کس کو معلوم نہیں کہ آپ کو پنجاب نے زرداری کے مقابلے میں برداشت کیا کہ بڑی بیماری کے مقابلے میں چھوٹی بیماری یا برائی کہہ لیں۔ خیر صورت حال اب بھی یہی ہے کہ تیسری بیماری یا برائی دونوں سے کم ہے۔ موازنے میں وہ کم یوں بھی ہے کہ اس کے اثاثے یہیں ہے۔ وہ باہر جانا خود بھی پسند نہیں کرتے۔ میں کوئی عمران کی سپورٹ نہیں کر رہا مگر اس بات پر ضرور کررہا ہوں کہ اگر نوازشریف اپنے ووٹرز کے ساتھ مخلص ہیں تو وہ واپس کیوں نہیں آ رہے۔ انہیں چاہیے کہ واپس آئیں اور انتخابات کا اعلان کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام بھگت رہے ہیں۔ عمران خان تو باز آنے والے نہیں ہیں کہ انہوں نے نئے سرے انتخاب کرائو ملک بچائو مہم کا آغاز کردیا ہے اور اب کے پہلا رائونڈ لاہور سے شروع ہورہا ہے۔ ایک بے چینی اور ابتری۔ خود خان اسی بے چینی اور ابتری کا ذکر اس وقت کرتے تھے جب مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کر رہے تھے۔ خان صاحب کہتے تھے ایسے میں ملک کیسے چلے گا۔ گویا اب وہ ملک چلنے نہیں دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پیغام کسے دے رہے ہیں کہ انتخاب کا اعلان کریں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ تو نیوٹرل ہو چکی ۔ پھر انہیں شہبازشریف سے کوئی خطرہ وغیرہ بھی نہیں۔ ایسے وہ ملازم یاد آ گیا جسے مالک نے کہا تھا کہ داتا دربار سے اپنی کھا آیا کرو اور میری لے آیا کرو۔ ایک مرتبہ پھر بات آ کر روس اور ایران پرٹھریکہ روس سستا پٹرول اور ایران گیس کا عطیہ دے گا۔ سوال پھر وہی کہ کیا امریکہ یہ سب کچھ برداشت کرے گا۔ وہ ہمیں عطیہ بھی لینے نہیں دے گا۔ یہ بات تو زرداری نے شروع کی تھی۔ ویسے ایک بات کہتا جائوں کہ زرداری ان سب کی نسبت زیادہ سلیقے سے معاہدے کرتے تھے۔ ان کو چلنے نہیں دیا گیا۔ مجھے تو اب بھی نہ صرف سٹیٹس کو نظر آتا ہے صرف امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کہ دیکھ لو ہم کہیں اور سجد ریز ہونے کو ہیں: میری آنکھ میں جو سما گیا سر آب نقش بنا گیا کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان لوہے کو ٹھنڈا نہیں ہونے دے رہے اور پے در پے اس پر چوٹیں لگا رہے ہیں لیکن یہ لوہا خاصا ڈھیٹ ہے کوئی شکل اختیار نہیں کر رہا۔ خان صاحب کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ووٹرز کو جگائے رکھیں۔ اگر حالات میں ٹھہرائو آ گیا تو پھر انتخاب وقت پر ہونا بھی کوئی ضروری نہیں ہیں۔ یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ دارومدار طاقت کے درست سرچشمے پر ہے۔ دوسرا یہ کہ جتنا وقت حکومت کو زیادہ ملے گا سازش کا امکان بڑھتا جائے گا۔ پھر یہ کہ پی ٹی آئی کے جوشیلے سپورٹرز اتنی دیر تک کڑھتے رہیں گے اور تلملاتے رہیں گے۔ آپس کی نفرتیں کم کریں۔ ہم بربادی کا ہی سوچتے ہیں کہ طاقت ملے تو سب کو تہس نہس کریں۔ یہ نہیں کہ کسی کے کام آئیں اور لوگوں تک خیر پہنچائیں۔ ہم میں یہ زہر کس نے بھرا ہے انہی لوگوں نے جن کے لیے ہم ایک دوسرے کے درپے ہیں تو پھر وہ ہمارے کیا ہوئے۔ ناصر کاظمی کا ایک شعر: کون اچھا ہے اس زمانے میں کیوں کسی کو برا کہے کوئی