فافن، دولت مشترکہ اور غیر ملکی مبصرین نے آر، او آفسز میں دھاندلی کو بے نقاب کرتے ہوئے اس چیز پر شدید اعتراض کیا کہ رزلٹ منتج کرتے وقت میڈیا اور امیدواروں کے سامنے گنتی نہیں کی گئی اور انہیں دفاتر سے نکال دیا گیا اور بعد میں رزلٹ خود سنانے کی بجائے کئی گھنٹے نتائج روک کر رزلٹ الیکشن کمیشن نے اناؤنس کئے ۔ پنجاب میں چا لیس سے زائد نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اپنے ریٹرنگ آفیسرز کی تلاش میں ہیں مگر پولیس کے ذریعے ان کی رسائی نا ممکن بنا دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے 2018ء کے الیکشن رزلٹ پر بڑا درست تبصرہ کیا تھا کہ جب مسلسل رزلٹ آنے بند ہو جائیں تو سمجھ جائیں کہ دھاندلی ہو رہی ہے مگر اب وہ اس لیے چپ ہیں کہ بقول مولانا فضل الرحمن وہ الیکشن ہار چکے تھے مگر انہیں دھاندلی سے جتوا دیا تاہم اس کھلے راز سے ہر کوئی واقف ہے کیونکہ اس دفعہ الیکشن کے رزلٹ بڑی ڈھٹائی اورکھلے عام تبدیل کیے گئے۔ اس غیر منصفانہ روش سے ملک کے عوام کی اکثریت شدید اشتعال میں ہے۔ عوام اس صورتحال کا 1970ء کے انتخابات سے موازنہ کر رہی ہے کہ جب یحییٰ خان نے 161 سیٹیں جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا اور ملک دو لخت ہو گیا اگر چہ آج کے سیاسی عوامل 1970ء سے مختلف ہیں مگر ہمارے پالیسی ساز مراکز کو اس پر غور و غوض کرنا چاہیے کہ بچے کچھے پاکستان کے عوام میں بنگالی عوام کی طرح احساس محرومی کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ احساس محرومی نا انصافی سے پیدا ہوتا ہے جو پھر نفرت کی فصل کاشت کرتا ہے اور لوگ مجبوراً بغاوت کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، سمجھدار اور عوام دوست ریاستیں اور ان کی عدالتیں ایسے حالات ہی نہیں پیدا ہونے دیتی ہیں ۔ جنرل نعیم لودھی نے بڑی دانش مندانہ بات کی ہے کہ تحریک انصاف کو فوج کی حقیقت تسلیم کر نا چاہیے جب کہ فوج کو بھی تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ ملک کی بہتری اسی میں ہے انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان نے بالواسطہ ملاقاتوں میں واضح کیا کہ 9 مئی کے واقعات کسی منظم سازش کے ذریعے نہیں ہوئے اس میں ملوث افراد کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا اور دوبارہ ایسے واقعات کو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اب تحریک انصاف الیکشن میں دھاندلی کے خلاف پرامن احتجاج کی کال دیتی ہے مگر پنجاب کی نگران حکومت ان پر غیر ضروری کریک ڈاؤن کر کے اور مقدمات قائم کر کے پتہ نہیں کس دشمن کا ایجنڈا پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام نے ٹاؤٹ نوزائیدہ جماعتوں کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جہانگیر ترین سیاست سے کنارہ کش ہوگئے پرویز خٹک کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اپنوں نے جو کھیل کھیلا وہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ سیاست کے سینے میں کوئی دل نہیں ہوتا ہے چھوٹا بھائی بروٹس بن جاتا ہے۔ دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی دل شکستہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے دل کے زخم کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیے ہیں اور اس سچ کا اعتراف کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف جنرل باجوہ اور فیض کے کہنے پر عدم کی تحریک لائی گئی تھی۔ 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی الیکشن چوری ہو ئے ہیں جسکا بظاہر فائدہ ن لیگ ہوا ہے۔ پاکستان میں کرسی پر بیٹھنے والا حکمران نہیں ہوتا ہے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور الیکشن کے بعد اسی جماعت کو اقتدار سونپا جاتا ہے جو ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کی حامی بھر ے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاست سے کوئی سروکار نہ رکھے ہم ان کو سپورٹ کریں گے اور وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں ۔ ملک کے نوجوان طبقے نے قیدی نمبر 804 کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سوشل میڈیا، اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کے نامزد امیدواروں کو تلاش کر کے ووٹ دیا اور ان 77 فیصد امیدواروں کا الیکشن پر کوئی خاص خرچ بھی نہیں ہوا الیکشن میں ٹک ٹاک اور یو ٹیوب کے ذریعے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کمپین منظم کر کے دولت اور اشتہارات کے ذریعے اربوں خرچ کرنے والی جماعتوں کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظریاتی طاقت کے سامنے اقتدار کی سیاست کرنے والے جتنی بھی دولت خرچ کر لیں، امیدواروں کو گرفتار کر لیں، انکا نشان واپس لے لیا جائے جمہور کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ یہ سیاسی نظام حکومت کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائے گا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ہے کہ تبدیلی کے نام پر گزشتہ دس سالوں سے ملک کے ساتھ عجیب و غریب وارداتیں کی جا رہی ہیں دو سالوں سے بار بار آئین کی خلاف ورزی الیکشن کمیشن کر رہا ہے نوے دنوں میں انتخابات کا سپریم کورٹ کا حکم رد کر دیا گیا سپریم کورٹ کی عمارت پر جمعیت علمائے اسلام کے کا رکنوں نے چڑھائی کر دی اعلی عدلیہ کے ججوں کی الیکٹرانک میڈیا اور پارلیمنٹ میں جس طرح توہین کی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے اب ایک طرف شہباز شریف کی حکومت نے عوام کو شدید اقتصادی بحران کا شکار کیا تو دوسری طرف اس ناکام ایڈمنسٹریٹر کو دوبارہ عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے سٹائل آف گورنس میں زمین آسمان کا فرق ہے عوام کے ایک طبقے کو امید تھی کہ اگر نواز شریف ملک کا وزیر اعظم بنا تو وہ مہنگائی کم کرے گا اور ہندوستان سے تعلقات بہتر کرے گا۔ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی 2017ء تک کی کارکردگی کی تشہیر کر کے الیکشن میں حصہ لیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم ایک مکمل اقتصادی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی اور عدالتی تباہی کی طرف بڑھ چکے ہیں اب یہ فیصلہ قیادت نے کرنا ہے کہ قوم اور ملک کو اس نہج پر پہنچنے سے کیسے روکا جائے اور عوام نے آنٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ دیا ہے تو بہتر ہے کہ ہر سیاسی جماعت، لیڈر کارکن اور عام شہری کا جائز سیاسی، سماجی اور اقتصادی حق تسلیم کیا جائے اور نیو سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے سب کو ساتھ لے کر چلا جائے فوج سب کی ہے اور فوج بھی عوام کی محافظ ہے لہذا یہ تاثر ختم ہو نا ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی چہیتا ہے یا کوئی ناپسندیدہ ہے آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں پارلیمانی نظام مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنا ناممکن ہے لہذا اہل نظر احباب سے دردمندانہ اپیل ہے کہ جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق چلنے دیا جائے اسی میں ہم سب کی سالمیت اور بقا کا راز ہے۔ اے اہل نظر! ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا