حج اور عمرہ دونوں انتہائی مقبول عمل ہیں اور یہ صاحب استطاعت کے لیے لازمی ہیں جبکہ حج تو فرض ہے اور عمرہ سنت جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال کثیر عطا کیا وہ حج اور عمرہ ہر سال بھی کرتے ہیں لیکن جناب رسالت مآب ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں صرف ایک حج کیا تھا تا کہ اْمت کے لیے آسانی رہے۔ باقی نفلی حج ہی شمار ہوتے ہیں۔ حج اور عمرہ کے لیے لازم ہے کہ انسان احرام کی چادروں میں ہو لیکن سعودی عرب کی حکومت نے کرونا کے بعد جو پابند یاں لگائی تھیں وہ ابھی تک جاری ہیں خصوصاً عمرہ کرنے کے بعد جب انسان دوسرے کپڑے پہن لیتا ہے تو پھر اْسے مطلف یعنی بیت اللہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ماسوائے جن لوگوں نے احرام پہن رکھا ہو اور جن لوگوں نے سادہ کپڑے پہن رکھے ہوں تو اْن کو حرم شریف کی اوپر منزل پر طواف کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جو نیچے مطاف کے طواف سے تین گنا زیادہ چکر بنتے ہیں جو شاید نوجوانوں کے علاوہ بزرگوں خواتین اور بچوں کے بس کی بات ہی نہیں اس لیے عمرہ کرنے کے بعد اکثر لوگ احرام باند ھ کر دوبارہ مطاف میں آجاتے ہیں اور یوں وہ طواف کرتے ہیں اِس غیر ضروری شرط کے بارے میں سعودی حکومت کو غور کرنا چاہیے ۔ عمرہ کرنے کے بعد بیت اللہ شریف کے اندر سب سے بڑی عبادت طواف ہے جو بغیر احرام کے بھی کیا جا سکتا ہے۔اس لیے لوگوں کو مجبوری کی حالت میں عمرہ کرنے کے بعد بھی احرام پہن کر آنا پڑتا ہے چاہے آپ 3 بجے شب بھی بیت اللہ میں داخل ہوں یا پھر دن کے کسی حصہ میں آتے ہیں۔ 24 گھنٹے طواف جاری رہتا ہے ماسوائے اذان کے بعد فرض نماز کی ادائیگی کے دوران طواف بند ہو جاتا ہے اور اِس دوران اکثر اوقات ابا بیل پرندوں کو طواف کرتے دیکھا گیا ہے۔ شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’شب جائے کے من بودم‘‘میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ کسی اسلامی ملک کے بادشاہ کے لیے عام لوگوں کو مطاف میں داخل ہونے اور طواف کرنے سے روک دیا گیا تو اِس دوران ابابیل پرندوں نے سینکڑوں کی تعداد میں بیت اللہ شریف کا طواف شروع کر دیا اور انسانوں کو بتا دیا کہ میرے بیت اللہ میں صرف تمہارا طواف نہیں بلکہ دیگر مخلوقات بھی طواف کر تی رہتی ہیں اسی طرح سے فرشتے اور جنات جو ہمیں نظر نہیں آتے وہ بھی اَن گنت تعداد میں 24 گھنٹے طواف کرتے رہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی شان ہی ایسی عظیم تر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سے ابرہیہ جیسے بادشاہ سے اِس کی حفاظت فرمائی تھی ایسے ہی وہ اپنے گھر میں ایک لمحہ بھی طواف نہیں رکنے دیتا۔ ہم شاہ فہد گیٹ سے بیت اللہ میں داخل ہو ئے چونکہ صبح کی نماز ہوٹل کی مسجد میں ادا کرنے کے بعد سات بجے بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے تھے تو صبح کی نماز کے کچھ دیر بعد حرم شریف میں صفائی شروع ہو جاتی ہے اس لیے دیگر دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ہم جونہی شاہ فہد گیٹ سے مطاف کے لیے داخل ہو ئے تو دنیا ہی بدل گئی ’’اے اللہ کیا میں واقعی تیرے دربار میں پہنچ گیا ہوں‘‘۔ حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جب انسان پہلی بار خانہ کعبے کو دیکھے تو اْس وقت جو بھی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ ہم نے بھی اِس موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگی جو یقیناً قبول ہو چکی ہو گی۔ صبح کی نماز کے بعد آٹھ بجے سے لے کر 10 بجے تک مطاف میں کچھ رش کم ہو جاتا ہے ہم نے حجرا سود کے سامنے سے طواف کا پہلا چکر شروع کیا اور پھر اپنے مالک سے کبھی عربی میں اور کبھی اپنی زبان میں باتیں کرتے رہے چونکہ وہ مالک اور خالق ہے اْسی نے اپنی مخلوق کو تخلیق فرمایا اور پھر اپنی مخلوق کو مختلف بولیاں بھی سکھائیں۔ پوری دنیا کے مسلمان بیت اللہ شریف میں آکر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور روتے روتے اْن کی آوازیں رندھ جاتی ہیں ظاہری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے گناہگاروں کو اس لیے تو اپنے گھر میں آنے کااجازت نامہ دیا ہوتا ہے کہ گاہ اقدس میں آکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اْس پاک ذات کو راضی کرنے کے لیے اْس کی مناجات کریں۔ حضور اقدسﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ خانہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ چمٹ چمٹ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں کیونکہ اِس جگہ یعنی باب ملتزم کے ساتھ تمہاری دعائیں یقیناً قبول ہوتی ہیں۔ لوگ بڑی تعداد میں حجرا سود کا بوسہ لینے کے بعد بیت اللہ شریف کے دروازہ کے ساتھ چمٹ چمٹ کر دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں یہ بھی بڑا روحانی منظر ہوتا ہے اور پھر دوران طواف جب آپ اپنے پیارے اللہ تعالیٰ غفور رحیم رب سے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو اپنے پیارے رشتہ دار اور دوست بھی یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کم از کم میرے ساتھ تو یہ ضرور ہوتا ہے اْن سے زیادہ وہ دوست یاد آتے ہیں کہ جن کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ آپ عمرہ پر گئے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے تمام جاننے والوں کے لیے بھی خوب دعائیں کیں یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ دعائیں بھی قبول کی ہوں گی۔ ویسے بھی جن دوستوں کے لیے اْن کی غیر موجودگی میں دعائیں مانگی جائیں وہ ضرور قبول ہوتی ہیں اور طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے ساتھ دو نفل پڑھنے کے بعد صفا مروہ پہاڑ پر جا کر سات چکر لازمی قرار دیئے اور ہاں وہ کیا منظر ہو گا جب سیدنا اسماعیل خانہ کعبہ کے سامنے پیاس سے نڈھال ہو کر ایڑیاں زمین پر رگڑ رہے تھے اور اْن کی والد محترمہ بی بی ہاجرہ پانی کی تلاش میں سر گرداں صفا اور مروہ پہاڑ پر آجا رہی تھیں کہ اِسی دوران اللہ تعالیٰ کو بی بی ہاجرہ کی اِس ادا پر ایسا ترس آیا کہ فوراً جبرائیل امین کو حکم دیا کہ جاؤ میرے اسماعیل کے ایڑیوں کے نیچے پر مار کر پانی جاری کرو اور پھر حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میری اماں ہاجرہ اِس تیزی سے نکلتے پانی کو زم زم ٹھہر ٹھہر نہ کہتی تو ہر جگہ زم زم ہوتا۔ (جاری ہے)