نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن نے ملک بھر میں اودھم مچا دیا ہے۔ دیگر پارٹیوں سے قابلِ انتخاب نمائندے ستاروں کی طرح ٹوٹ کر اس کی جھولی میں گر رہے ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں سے لیکر پیپلز پارٹی جیسی قومی سطح کی جماعت تک کون ہے جو اس کے وار سے بچ سکاہے؟ ایک ایسی پارٹی جس سے نے حال میں ڈیڑھ سال تک حکومت کی اور نتیجتاً عوام کی امیدوں اور امنگوں کو مہنگائی کے طوفان کی نذر کردیا، آخر وہ کیسے ایک مقبول پارٹی ہوسکتی ہے؟ یہ عقل کو حیران کردینے والا معاملہ ہے اور ایک حد تک معجزاتی بھی۔ہم سازشی نظریات پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہم اپنے تجزیے میں کسی پوشیدہ ہاتھ کی طرف اشارہ کریں گے جسکا تذکرہ سیاسی تجزیوں میں رواج پاچکا ہے۔ سائنسی نظریہ تحقیق کی روسے، جس پر ہم عمل کرتے ہیں، جو چیز نظر ہی نہیں آتی تو وہ تجزیے کا حصہ نہیں بن سکتی۔ خفیہ ہے تو خفیہ ہی رہے۔ اسی میں خفیہ کی بھلائی بھی ہے اور قوم کی بھی۔ بدنامی مشہوری کی طرف پہلا قدم ہے، باقی کھیل بیانیے کا ہے۔ بہرحال، ذکر ہورہا تھا مسلم لیگ ن، بعد از وطن واپسی میاں نواز شریف، کا کہ وہ کیسے انتخابات سے عین پہلے اپنی کامیابی کے جھنڈے پورے ملک میں گاڑتی جارہی ہے اور ہمعصر پارٹیاں مجبوری اور لاچاری کی تصویر بنی پھرتی ہیں۔ مرکزی قائد رانا ثنا اللہ نے دعوی کیا ہے کہ مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اور قومی سیٹیں کی اکثریت جیت کر نہ صرف اس صوبے میں بلکہ وفاق میں بھی اپنی حکومت قائم کریگی۔ ن لیگ سے وابستہ بیانیہ پارٹی کی مقبولیت کو میاں نواز شریف کی سحر انگیز شخصیت سے منسوب کر رہا ہے۔ اس فکری ٹولے کے نزدیک میاں صاحب کو اگر مقتدر طاقتیں اقتدار سے زبردستی الگ نہ کرتیں تو ملک گونا گوں بحرانوں سے دوچار نہ ہوتا۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھ آگئی ہے تو میاں صاحب نے دوبارہ ملک و قوم کو اپنی خدمات پیش کردی ہیں اور انہیں ملک بھر میں پزیرائی مل رہی ہے۔ یہ وہ بات ہے جومیاں صاحب نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو بتائی ہے جنہوں نے حال ہی میں ان سے رائے ونڈ میں ملاقات کی اور ان سے فروری میں ہونے والے انتخابات کے منصفانہ اور آزادانہ ہونے کی ضرورت پر بات کی ہے۔ ن لیگ کے علاوہ جن پارٹی عہدیداران نے ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی ہے وہ پیپلز پارٹی اور استحکام پارٹی ہے ، اول الذکر، ن لیگ کی حکومت کا حصہ تھی جب کہ دوسری ملک کی سب سے بڑی پارٹی تحریک انصاف کی منحرف قیادت پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ بلوم تحریک انصاف کی قیادت سے نہیں ملے۔ یہ وہ پارٹی ہے جو امریکہ پر اس حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگاتی ہے اور سیاسی قیادت سے بلوم کی ملاقاتوں کو اس سازش کا تسلسل قرار دیتی ہے۔ن لیگ کی ' مقبولیت' کو اگر شفاف انتخابات کے لیے درکا ماحول کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال مایوس کن تو ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی ذمہ دار مسلم لیگ ن ہے وہ بھی صرف اس لیے کہ اسے ایسے ماحول کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اگر کسی نے پوچھنا ہے تو الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ کیا اس نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور شفاف ماحول میں ہوں۔ یا پھر یہ کہ کیا اس کی دانست میں آئین کی روح کے مطابق عام انتخابات کرانے کے لیے سازگار ماحول میسر ہے؟ ڈونلڈ بلوم نے الیکشن کمیشن کے سربراہ سے بھی ملاقات کی ہے اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں اس کی طرف سے کی گئی ہرکوشش کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یوں صرف ن لیگ کی قابلِ انتخاب قیادت میں مقبولیت ہی دور حاضر کا حیران کن واقعہ نہیں ہے بلکہ ڈونلڈ بلوم کی شفاف انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی اور اس سلسلے میں عوام سے اپنائیت کا اظہار بھی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اگر اس وقت انتخابی ماحول مکدر رہتا ہے تو اسکا الزام ن لیگ کو نہیں دیا جاسکتا لیکن اس کا فائدہ ن لیگ کو ہورہا ہے۔ دوسری صورت میں اگر الیکشن ماحول ، ڈونالڈ بوم کی کوششوں کے طفیل ہی سہی، بہتر بن پاتا ہے تو یہ ایک ایسا ماحول ہوگا جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو کھلا میدان میسر ہوگا یعنی تحریک انصاف کی قیادت کو کم ازکم وہ رعایات دینا ہونگی جو نواز شریف کو حاصل ہیں، یعنی وہ نہ صرف ضمانت پر جیل سے باہر آجائے بلکہ اسے انتخابی سرگرمیوں کی بھی پوری اجازت ہو۔ باد ی النظر میں انتخابی کھیل کا ایک اور کردار بھی ہے۔ یہ آئی ایم ایف ہے۔ اسکے وفد نے ملکی معیشت کی سانسیں بحال کرنے لیے عارضی انتظامات کے طور پر قرضہ کی شرائط کے حوالے سے تحریک انصاف کے چئیر مین سے ملاقات کی تھی جس کے مثبت نتائج نکلے تھے۔ اب اگر یہ پروگرام پٹڑی پر چڑھ ہی چکا ہے تو بعد از انتخابات معاملات چلانے کے لیے اس پارٹی کا انتخابی میدان میں ہونا ضروری ہے جس کے معاملات آئی ایم ایف سے دیگر بڑی پارٹیوں کی نسبت زیادہ بہتر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف وفد سے اپنی ملاقات میں کچھ ضمانتیں نہ مانگی ہوں۔ سینیٹر رضا ربانی آخر اس معاملے پر ویسے تو چیں جبیں نہیں ہوئے تھے اور اس واقعے کو سیاسی خود مختاری پر سمجھوتہ قرار نہیں دے ڈالا تھا لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، پاکستان کیا کسی بھی ملک میں جمہوریت کامیاب ہوتی ہے تو اس کا سٹریٹجک فائدہ امریکہ کو ہی ہوتا ہے اور اس طرف پہلا قدم آزاد اور شفاف انتخابات ہیں۔ لیکن ان انتخابات کے شفاف ہونے کے لیے سازگار ماحول ضروری ہے۔ یوں ہم تو یہی امید کریں گے کہ ڈونلڈبلوم کی پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے کوششیں رنگ لائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا بھر پور موقع ملے گا بلکہ امریکی سٹر یٹجک مفادات کی بھی آبیاری ہوگی جو کہ دنیا میں جمہوریت کے استحکام سے جڑے ہیں !