جو شخص ملنے جلنے میں عاجزی‘ انکساری میں فروتنی اختیار کرے، اس سے ہوشیار رہو۔چیتا‘ باز اور کمان یہ سب دبک کر مارتے ہیں۔اگر آپ آصف علی زرداری کی چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ہونے والی نشست برخاست کا جائزہ لیں، تو ان الفاظ کی عملی تصویر نظر آئے گی۔بظاہر ایک معرکہ سر ہو چکا ہے لیکن قانونی دائو پیج ابھی باقی۔ ادنی سی فہم و فراست والا شخص بھی یہ الفاظ کہتے سنا گیا کہ: چودھری شجاعت حسین نے اس عمر میں ایسی غلطی کی جس کا آنے والی نسلیں کبھی مداوا نہ کر سکیں گی۔چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کزن ہونے کے باوجود سیاست میں ’’چودھری برادران‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔اسی بنا پرکئی لوگ انھیں سکا بھائی تصور کرتے تھے،عمر کے آخری حصے میں چوہدری شجاعت حسین نے ثابت کر دیا کہ بھائی بھائی کا بازو اور کزن ’’شریکہ‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ 12کروڑ آبادی کا صوبہ انھوں نے ایسی جماعت کے سپرد کر دیا،جو کرپشن‘ لوٹ مار میں گھٹنوں تک دھنسی ہوئی ہے۔ عظیم دانشور نے کہا تھا:دوسروں کے سہارے کھڑا ہونے والی پارٹیاں دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جاتی ہیں، مسلم لیگ (ق)صرف پگھلے گی ہی نہیں، تحلیل ہو جائے گی۔ اسکندر مرزا افتاد طبع کے اعتبار سے پاکستانی حکمرانوں میں سب سے زیادہ چالاک تھا‘سیاست کی بساط پر اس کی انگلیاںمشاق شاطر کی طرح کبھی فارغ نہ رہتی تھیں، انہیں مہروں کو بدلتے رہنے میں بڑا لطف آتا تھا۔بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خاں جوڑ توڑ کے ماہر تھے، تاریخ میں ان کا سیاسی کردار چڑھتے سورج کی طرح واضح۔ان کی نیک نامی کا ڈنکا بجتا رہے گا۔ مگر آصف علی زرداری محلاتی سازشوں کے ماہر۔تاریخ انھیں کس نام سے یاد رکھے گی،رات کو اس کی ایک جھلک نظر آئی۔جو تاریخ کا حصہ بن چکی۔اس وقت انہوں نے جو کھیل کھیلا، سیاست پر اس کے اثرات تادیر برقرار رہیں گے۔ چودھری برادران زندگی بھر ایک دسترخوان پر نہیں بیٹھ سکیں گے، شاید کچھ دنوں تک گھروں میں دیواریں ابھر آئیں اور کاروبار بھی تقسیم۔خوشی اپنی اپنی صرف غمی میں ایک حقے پر بیٹھ سکتے ہیں۔نوبت یہاں تل پہنچ چکی کہ اب آنکھیں ملانا تو دور،شاید قبر پر مٹی ڈالتے وقت ہاتھ بھی خاک آلودہ نہ ہوں۔کیونکہ اقتدار ایسی چیز ہے جو خون کے رشتے بھی توڑ دیتی ہے۔ اقتدار ملنے پر شقی سے شقی قلب بھی موم ہو جاتے ہیں لیکن گزشتہ روز کے منظر نے چودھری خاندان کے بچوں سے مستقبل کی شگفتگیاں چھین لیں، اب وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اجنبی ہوں گے۔چودھری مونس الٰہی کے چہرے پر تعجب اور گھبراہٹ دیکھ کر محسوس ہوا کہ اب اکٹھا سیاسی سفر منقطع ہو چکا ہے‘زندگی بھر کے لیے سیاسی راستے جدا۔ حکمران اتحاد نے ایک اعلامیہ جاری کیا،جو دراصل اعلامیہ سے بڑھ کر اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔جس میں کہا گیا ۔’’عمران خاں بار بار سیاست میں انتشار پیدا کر رہا ہے، عمران خاں کے انتشار کا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے، ایک متکبر آئین شکن فسطائیت کا پیکر اختیارات کی لکیر کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، عمران خاں آئین پاکستان، عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری نظام کو بھی معیشت کی طرح دیوالیہ کرانا چاہتا ہے۔‘‘ اگر اس اعلامیہ کو دیکھیں تو یہ مکمل طور پر حکمران اتحاد پر فٹ آتا ہے،دوروز قبل مولانا فضل الرحمن نے جو لب ولہجہ اختیار کیا، وہ کسی بھی سیاسی لیڈر کو مخالف کے بارے میں زیب نہیں دیتا ۔معیشت کب خراب ہوئی، ڈالر نے کب اونچی اوڑان بھری، اس سے ہر کوئی واقف۔منی لانڈرنگ میں کون ملوث ،قانون سے بالاتر کون ؟ ضماتیں کون کروا رہا، فرد جرم لگنے سے کون گھبرا رہا ،کیس کی بار بار التوا کی کوشش کس نے کی ۔22کروڑ عوام نابینا ہیں نہ ہی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ۔ مہلت مقرر ہوتی ہے۔آخری کتاب میں حکم ہے: جہاں جہاں تمہیں رکنا اورٹھہرنا ہے اور جہاں تمہیں پہنچنا ہے، ہم جانتے ہیں۔حکمران اتحاد کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تاریخ اپنا ورق الٹنے والی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ اگلے ڈرامے کے سب کردار نئے ہوں گے۔صرف نومبر کا انتظار کریں ۔اسٹیبلشمنٹ، عمران خاں، نواز شریف اور آصف علی زرداری،سبھی نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں،حتیٰ کہ مولانافضل الرحمن نے بھی۔کل کیا ہو گا؟اس غیب پر ایمان لانا فرض،جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ طوفان اٹھانے کا فیصلہ چند دن قبل ہی ہو چکا تھا ۔فیصلہ سازوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عمران خاں نامی عوامی لیڈر کو اب اقتدار نہیں ملے گا،لیکن ایک سازش زمین پر ہوتی ہے،دوسری تدبیر آسماں پر ۔بحرحال آسمان والے کا فیصلہ سب پر غالب ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی اب گھبرائیں مت،عام انتخابات کی تیاری کریں ۔جس جنون اور جذبے کے ساتھ ضمنی الیکشن لڑا گیا،اسے ٹوٹنے مت دیں، اسی جذبے کے ساتھ عام انتخابات کی تیاری ضروری۔چوہدری شجاعت حسین تو سیاست میں قصہ پرینہ بن چکے،شاید کے صاحبزادگان بھی اب اقتدار کا منہ کبھی نہ دیکھ سکیں ۔لیکن چوہدری پرویزالٰہی کا مستقبل اب بھی روشن ۔گجرات، منڈی بہاوالدین ،چکوال،سیالکوٹ ،سرگودھا سمیت کئی اضلاع میں اپنے امیدوار کھڑے کر کے جیت سمیٹ سکیں گے ۔کیونکہ ان اضلاع میں ان کی پارٹی پوزیشن کافی مضبوط ہے ۔لیڈر ہو یا دوست ،خیر خواہی خوشامد میں نہیں ہوتی ،بلکہ سچائی اور صاف گوئی میں ۔خوشامد کی بجائے دوستوں کو اچھا مشورہ دیا جائے تاکہ وہ بھٹکنے سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس وقت اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں ڈالنے کی بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے،عمران خاں کے نام پر حکومت بھڑک اٹھتی ہے،اسے بھی برداشت سے کام لینا چاہیے ۔کیونکہ اس وقت اگر پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے تو واحد راستہ الیکشن ۔حکمران اتحاد بھی اس جانب آئے اورعمران خاں بھی ۔ سپریم کورٹ نے کل تک کی تاریخ دے دی ،حمزہ شہباز کی حیثیت یکم جولائی کی سطح پر رکھنے کا حکم بھی جاری کر دیا ،ان دو دن میں ملکی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے بھی سر جوڑ کر سوچیں ۔ملک کو ایسے ہی مسائل میںگھیرے رکھنا ہے یا پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے ۔ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سوکھے پتوں کی طرح خشک ہو رہے ۔قرضے لیکر ملک کب تک چلایا جائے گا ۔اس بحران کا واحد حل بالآخر شفاف عام انتخابات ۔