عرصہ ہوا ضیا بانڈے صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ شہروں کے خود کفیل ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ایسے نہیں کہ وہ دیہاتوں کو ان کے حال پر چھوڑدیں بلکہ یہ کہ و ہ اس قابل ہوں کہ اپنے قرب و جوار میں بھوک کی بجائے خوشحالی کو فروغ دیں۔ کیسے؟ چھابڑی اور ٹھیلے اور کھوکھے والوں کو اپنے اندر کاروبار کرنے کی اجازت دیں ۔ ایک اتھارٹی بنے جو انہیں سہولت بھی دے اور شکایات کی صورت میں داد رسی بھی کرے۔ اگر اس ملک کے شہر منتخب انتظامیہ کے ماتحت ہوں تو یقیناً یہ گلی محلے میں ہونے والا کاروبار فروغ پائے گا۔ گھومتے پھرتے کاروبار رجسٹرڈ اور قواعد کے تابع۔۔۔ تو کیوں نہیں۔ اگر کوئی شخص چند سو یا ہزار کی سرمایہ کاری کرکے روزی روٹی کما سکتا ہے تو یقیناً وہ اس شہر سے غربت کا بوجھ ہی کم کر رہا ہے۔ ضیا بانڈے شہری زندگی کے ایک رخ کی بات کر رہے ہیں۔ ریوڑیاں، دہی بلے ، غبارے اور گھگو گھوڑے بیچنے والے اپنے کام میں آزاد ہوں تو شائد بازواروں میں بھیک مانگنے والے کم نظر آئیں۔ دوسری طرف ماحول دوست ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں کو خود کفیل کرنیکے لیے انہیں سبز انقلاب کی ضرورت ہے۔ کیسے؟ بارشی اور آلودہ پانی کی آمیزش کو روک دیں تو شہر سرسبز ہوجائیں گے۔ صاف پانی دوبارہ استعمال آجائے گا۔آلودہ پانی کو شہر سے باہر لیجائیں اور اسے قدرتی طریقے سے صاف کرکے کسانوں کو دان کردیں۔ شہر کے اندر سبزیوں اور فروٹ کی بھرمار ہوجائیگی۔ کسان شہر کے اناج کی ضروریات پوری کردیں گے۔ شہر کے اندر پانی کے تالاب اور نہریں صاف ہونگی تو اس کے کناروں پر ہونے والے کاروبار کی شان ہی الگ ہے۔ تفریح کی سہولت جہاں ہوگی وہاں شہر کے باسی تو جھمگٹا کریں گے ہی، سیاح بھی کھنچے چلے آئیں گے۔ کسے پتہ نہیں کہ سیاح کسی شہر میں جاتے ہیں تو اسکے بازاروں، گلیوں ، تاریخی مقامات اور آبی گزرگاہوں کی طرف ضرور جاتے ہیں۔ ہم دور نہیں جاتے اسلام آباد کو ہی لے لیتے ہیں۔ مارگلہ کے دامن سے اترنے والی ندیوں میں کبھی مچھلیا ں تیرتی تھیں۔ اب ان کے پانیوں کی رنگت سیاہی مائل ہے اور سارا سال ان سے تعفن اٹھتا ہے۔ وجہ شہر کی تعمیر کے وقت اسکا نکاسی آب کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے اپنا استعمال شدہ پانی قدرتی نالوں میں چھوڑ رہے ہیں۔ بہت ساری جگہوں پر انہیں ڈھانک کر عمارتیں تک کھڑی کر دی گئیں ہیں۔ نئے سیکٹر بنے ہیں تو وہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ مجھے ایک دفعہ راولپنڈی سے نیچے ایک گائوں جانے کا اتفاق ہوا وہاں میں نے بہت ہی شاندار پن چکیاں دیکھیں جو اسلام آباد بننے سے بہت پہلے لگائی گئی تھیں۔ خواتین وہاں وہاں پر کپڑے دھوتیں۔ ایک میلے کا سماں رہتا۔ پوری کمیونٹی کی زندگی ان بنائے گئے بندوں کے گرد گھومتی۔ لیکن اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا سے ندیوں میں بہہ کر آنے والے کیمائی مادے کی وجہ یہ پانی سیاہ ہوچکا تھا۔ کرب و جوار میں پانی کی سپلائی کا واحد ذریعہ یہی ندی نالے تھے۔ اب مویشی اور انسان دونوں بیمار ہیں۔ لوگ دعا کرتے ہیں کہ وہاں سے کوئی سڑک گزرے اور انکی زمینوں پر کوئی ہاوسنگ سوسائٹی لانچ ہوجائے۔ پیسہ ملے اور وہ شہر منتقل ہوجائیں۔ اگر شہروں سے گزرنے والی آبی گزرگاہوں کو طاقتوروں کے نرغے سے چھڑالیا جائے تو نیچے دیہات میں بسنے والوں کی زندگی میں کتنا انقلاب آجائیگا۔ میں نے ایسے ماہرین دیکھے ہیں جو پانی کو قدرتی طریقے سے صاف کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ انہیں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کیلیے رقم دیں اور کچھ عرصے بعد یہ پراجیکٹ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہوجائیگا۔ میں نے ماہرین کے متعدد انٹرویو کیے پتہ چلا شہروں اور صنعتی یونٹوں کا آلودہ پانی اگر صاف کر کے سٹور کرلیا جائے تو اس سے نہ صرف سبزیوں اور مچھلی کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے اور جنگلات اگائے جاسکتے ہیں بلکہ یہی پانی حسب ضرورت گندم کی پیداوار کے لیے کافی ہے۔ ماہرین کا دعوی ہے کہ دس سال میں آبی آلودگی پر قابو پاکر پائیدار معیشت کی بنیاد پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ شہروں کے نزدیک بیکار پڑی لاکھوں ایکڑ اراضی کو زرخیزی لوٹائی جاسکتی ہے اور اسے جنگلات میں بدلاجاسکتا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی دور میں دی گئی ماہرین کی ایک تجویز پلاننگ کمیشن کی الماریوں میں کہیں سڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے پچھلے دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ماحولیاتی کمیشن بھی تشکیل دیا تھا اور اسکی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کیلیے ڈیڈ لائن بھی دی لیکن حکومت بحران کے زد میں آگئی اور یوں یہ معاملہ دب گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھی۔اس کی قیادت کے ماحولیات کے معاملے پر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک ماحولیاتی فورس تشکیل دے گی اسلام آباد صاف ہوا کہ ہوا۔ لیکن یہ فورس مہنگائی کے خلاف بنی ! ماحولیاتی کمیشن بنوانے والی سول سوسائٹی بھی خاموش رہی اور عدالت کا دھیان بھی اس معاملے کی طرف نہ گیا۔ اب دوبارہ ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ برسر اقتدار ہے لیکن اسے جس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہوا، ماحولیات پر سوچنے کی کس کو فکر ہے۔ سی ڈی اے کا حال یہ ہے کہ عرصہ ہوا اس کے وسائل اتنے ہی ہیں کہ ملازمین کی فوج ظفر موج کو پالنے اور آّئیسکو کی بلوں کی ادائیگی کا بندوبست ہی کر پاتی ہے۔ کسی بھی نئے منصوبے کو شروع کرنے اور بند منصوبے کو چالو کرنے کے لیے اسے وفاقی حکومت سے گرانٹ چاہیے۔ بڑھتا آبادی کا بوجھ ، دیہاتوں کو لپیٹ میں لیے غربت، بے لگام مہنگائی کا بوجھ کسی پر تو پڑے گا؟ اب اس سوال کا جواب نہ تو اسلام آباد کی انتظامیہ کے پاس ہے، نہ ہی سی ڈی اے کے پاس۔ وفاقی حکومت ایک پاوں پہ کھڑی ہے اپنے وجود کو سہارنے میں متفکر۔ آئین انتظامی، مالی اور سیاسی طور پر خود مختار مقامی حکومت کا کہتا ہے لیکن سی ڈے اے سے اس ملک کی اشرافیہ کے جتنے مفادات وابستہ ہیں ۔ کوئی اس ادارے کو ہاتھ تک لگانے کا روادار نہیں۔ اگر یہ ادارہ منتخب حکومت کی نگرانی میں چلاجائے اور اپنی خدمات کا دائرہ کار دیہاتوں کی طرف بھی پھیلا دے تو یقین مانیں اس شہر کی قسمت ہی نہیں پورے ملک کی سیاست میں انقلاب آجائیگا۔ ن لیگ کی پچھلی حکومت نے ایسی کوشش کی ، ناکام ہوئی۔ تحریک انصاف سی ڈی اے کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہوپاتی تو آج سڑکوں پر نہ ہوتی!