پروفیسر شیو رام کشپ 6نومبر 1882ء میں پیدا ہوئے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں باٹنی کے استاد تھے۔ ان کا نام ایک تحقیق کے دوران اچانک میرے سامنے آ گیا۔ان دنوں ایسا ہی ہو رہا ہے،پرانے اوراق پلٹتا ہوں تو کسی جگہ کوئی نا مانوس نام نظر آتا ہے۔اس نام کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتا ہوں تو ساتھ کوئی اور شخصیت جڑی نظر آتی ہے۔یہ لوگ آرٹ، تحقیق، ہنر،تاریخ ، تعلیم اور خدمت خلق کے روشن چراغ تھے ،ان کی روشنی اب تک باقی ہے لیکن چراغ چھپا دئے گئے ہیں۔ شاندار ڈائریکٹر و ایکٹر بلراج ساہنی کا سفر نامہ پاکستان پڑھ رہا تھا۔ بلراج ساہنی 1962ء کے قریب لاہور آئے تھے۔ وہ اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج بھی گئے۔ انہوں نے اس وقت ہندی فلموں کی نامور ہیروئن کامنی کوشل کی لاہور آمد کا ذکر بھی کیا۔ دیگر ذرائع سے معلوم کیا تو پتہ چلا کامنی کوشل کا خاندان چوبرجی کے قریب رہتا تھا۔ اس طرح کی تفصیلات میں یہ بھی درج تھا کہ کامنی کوشل کے والد شیو رام کشپ گورنمنٹ کالج لاہور میں باٹنی پڑھاتے تھے۔ شیو رام کشپ کے متعلق ان کی اداکارہ بیٹی نے تقسیم کے بعد لاہور کے سفر نامے میں لکھا کہ ’’میں اپنا پرانا مکان دیکھنے چوبرجی گئی۔ سڑک کے دوسری جانب رہنے والے ہمارے پڑوسی اب اس مکان کے مالک تھے۔ انہوں نے فرنیچر کو اسی ترتیب سے رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر ہماری آویزاں کی گئیں پینٹگز اسی طرح موجود تھیں‘ میرا خوش دلی سے استقبال کیا۔ میرے والد کی پورے علاقے میں عزت تھی‘ لوگ پروفیسر شیو رام کا احترام کرتے تھے۔ ان کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی احترام ملا‘‘۔ مجھے پھول پودوں سے خاص لگائو ہے‘ ان کی تاریخ میں بھی دلچسپی ہے۔ پروفیسر شیو رام کے متعلق تفصیلات تلاش کرنے نکلا تو ایک کتاب مل گئی۔ ’’پلانٹس آف ڈسٹرکٹ لاہور‘‘۔ یہ کتاب 1930ء میں شائع ہوئی تھی۔ دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ اس زمانے میں لاہور اور اس کے اردگرد زیادہ ولائتی پودے نہیں تھے۔مقامی درختوں‘ جھاڑیوں‘ بیلوں اور پھولوں کی وہ اقسام باقی تھیں جو اب دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ پہلو مجھے ترغیب دے رہا تھا کہ پروفیسر شیو رام کی شخصیت کو کامنی کوشل کے حوالے سے الگ کر کے دیکھوں‘ ان کی علمی اور تحقیقی خدمات سے آگاہی حاصل کروں اور لاہور کے اس فرزند کو خراج عقیدت پیش کروں۔ مجھے پروفیسر شیو رام کشپ کی کتاب کے ساتھ ایک نئی کتاب ملی جس میں شیو رام کے کام کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ان کی خدمات کا ازسر نو جائزہ لیا گیا تھا۔ یہ ایک تحقیقی منصوبہ تھا جو نیشنل بوٹینکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لکھنؤ‘ فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اتراکھنڈ اور ٹانک راجستھان کی بناستھالی یونیورسٹی کے شعبہ بائیو سائنسز و بائیو ٹیکنالوجی کے اشتراک سے شروع کیا گیا۔ اس منصوبے میں مغربی ہمالیہ اور پنجاب کے میدانوں کے پھول پودوں سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔ پروفیسر شیو رام نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی کیا۔شروع میں اس یونیورسٹی میں باٹنی کے پروفیسر اور ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ انڈین بوٹینکل سوسائٹی کے 1919ء میں بانی سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1932ء میں انڈین سائنس کانگرس کے صدر چنے گئے۔ انہوں نے ان پودوں پر تحقیق کی جو جڑیں تنے ‘ پتے رکھتے تھے اور پھول و بیج کی بجائے فرن کی طرح ننھے پودوں سے نسل بڑھاتے ہیں۔ مغربی ہمالیہ کے پودوں پر ان کا تحقیقی کام 1914ء میں شائع ہوا۔ انہیں ہندوستانی بائیولوجی کا باپ کہا جاتا ہے‘ پروفیسر کشپ نے مغربی ہمالیہ کے پودوں پر تحقیق کے ضمن میں پہلے حصے میں 33 جینرااور 70سپی شیز کا ذکر کیا ہے ۔مجموعی طور پر انہوں نے 165سپی شیز بیان کی ہیں۔ ان کی خدمات پر انگریز حکومت نے انہیں رائے بہادر کا خطاب عطا کیا۔ ہارٹ اٹیک سے 1934ء میں جب پروفیسر شیو رام کشپ کا انتقال ہوا تو وہ اس وقت بھی پودوں پر تحقیقی کام میں مصروف تھے۔ پروفیسر کشپ 1900ء میں آگرہ کے میڈیکل سکول میں پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہاں سے 1904ء میں میڈیکل ڈپلومہ حاصل کیا۔ وہ دو سال تک اترپردیش میں طبی خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی نوکری کے دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہر امتحان میں پہلی پوزیشن پائی۔ پڑھانے کے دوران انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1912ء میں نیچرل سائنسز میں آنر کی ڈگری پائی۔ انہوں نے سبزیوں کی کئی اقسام پر تحقیقی کام کیا۔ انہیں ہمالیہ کے پودوں کو جاننے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار پہاڑوں پر بیمار ہو گئے اور بڑی مشکل سے ٹھیک ہوئے۔ وہ ہر وقت مطالعہ‘ تحقیق اور جستجو میں رہتے۔ اکثر کہا کرتے کہ ’’میری زندگی میرے کام سے زیادہ اہم نہیں‘‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے نام پر 1914ء میں کشپ بوٹینکل میوزیم قائم کیا گیا۔آج کل یہ گی سی بوٹینیکل گارڈن کہلاتا ہے۔ لاہور کی مقامی جڑی بوٹیوں کے جو نام پروفیسر شیو رام کشپ نے لکھے اور بعد میں کئی ریسرچ پیپر میں یہ نقل ہوئے وہ کچھ یوں ہیں: چولائی‘ سوئے بادل‘ المش‘ برہم ڈنڈی‘ بھکڑا ،جنگلی ہالا‘ بھنگ‘ باتھو‘ لہلی‘ ددھی‘ ہزار دانی‘ سینجی‘ سفید‘ دمہانی‘ کھٹکل‘ جنگلی پالک‘ لونک‘ جنگلی تمباکو‘ مکو‘ جل بوٹی‘ فلورا آف لاہور ڈسٹرکٹ میں علاقے میں پائے جانے والے تمام جنگلی پھولدار پودوں کی تفصیل موجود ہے۔ لاہور ہزاروں برس سے بہنے والے راوی کے کنارے آباد ہے‘ دریائی نمی کے اثرات زیر زمین پانی کی سطح اور پھول پودوں کی مخصوص اقسام اس خطے کا حسن ہے۔ پروفیسر شیو رام نے فطرت کے بے پرواہ حسن کو تحقیق کا موضوع بنا کر اہل لاہور کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ وہ یہ کام کرتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے تو ان کے شاگرد پروفیسر جوشی نے ادھورے کام کو مکمل کیا۔وہ لاہور میں فوت ہوئے اور یہیں ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ ٭٭٭٭٭