وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھارت نے جو سلوک کیا اور جو بھد بلاول بھٹو نے انٹرویوز میں بھارت کی اڑائی، وہ دنیا براہ راست دیکھ اور سن چکی ہے لیکن اس دورے نے پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔ پاکستان کا شنگھائی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ دانشمندانہ تھا۔بلاول بھٹو کی شرکت اس لیے بھی ضروری تھی کہ شنگھائی تعاون تنظیم چین کا برین چلڈ ہے۔ اس کی ناکامی سے چین کی سبکی کا خدشہ بھی لاحق تھا۔علاوہ ازیں اگر پاکستان وہاں موجود نہ ہوتا تو غالب امکان تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف کوئی قرارداد پاس کرالیتا یا پھر بھارت یکطرفہ طور پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو ہوا دیتا۔ بلاول بھٹو نے کانفرنس میں اور بعدا زاں میڈیا انٹرویوز میں بڑی مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف پاکستانی نقطہ نظربیان کیا بلکہ بھارت کے دوغلے پن اور مسلمانوں کے خلاف بھارتیہ جنتاپارٹی اور بھارتی حکومت کے متعصبانہ رویہ کی قلعی بھی کھولی ۔بھارتی میڈیا کے ذریعے متبادل نقطہ نظر بھی اجاگر کیا۔ البتہ آئینہ ان کو دیکھایا تو برا مان گئے۔ کشمیر کے حوالے سے بلاول بھٹو نے جو موقف اختیارکیا وہ ہی قومی موقف ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی بھی یہ ہی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں آئین کا آرٹیکل370 اور35اے بحال کرے تو دونوں ممالک مذاکرات کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر صائب اور اصولی ہے۔ بلاول بھٹو کے دورے کے دوران پیدا ہونے والی تلخی اور کشیدگی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنرل (ر) باجوہ کے دور سے چلنے والی خفیہ مفاہمت ہوا میں اڑگئی۔ جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی نے بھارت کو موقع دیا کہ وہ بغیر کسی ردعمل کے خوف کے کشمیریوں کی تحریک کو کچلے۔ لیڈرشپ کو جیلوں میں محبوس کرے اور سیاسی آزادیوںکا گلا گھونٹے اور کوئی آہ وبکا کرنے والا بھی نہ ہو۔ گزشتہ چند ماہ میں قومی سطح پرجنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی کو جس طرح بڑے پیمانے پر زیر بحث لاکر مسترد کیا گیا، اس نے مقتدر قوتوں کو یہ باورکرایا ہے کہ قوم کشمیر پر ’’سودے بازی‘‘ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔بند کمروں میں کشمیر پر ہونے والے فیصلوں کی کوئی بھی سیاسی اونر شپ لینے کو دستیاب نہ ہوگا۔ جو سیاستدان ایسا کریں گے عوام انہیں مسترد کردیں گے۔ افسوس!تمام تر معلومات، تجزیہ اور ماہرین کی موجودگی کے باوجودجنرل باجوہ یہ ادراک نہ کرسکے کہ بھارت انہیں کوئی رعایت نہیں دینے والا۔حالانکہ بھارتی حکمت عملی کے اسباب بہت واضح ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی، پاکستان سے محاذآرائی اور کشمیریوں کو جسمانی اور نفسیاتی تشدد کانشانہ بنانے سے بھارتیہ جنتاپارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے۔یاد رہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت داخلی سیاسی کامیابیوں کو خارجہ پالیسی یا خطے میں امن کی خاطر قربان نہیں کرتی۔ دوسرا پہلو بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ اور چین اورا مریکہ کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی ہے۔ بھارت کو امریکی امداد اور سفارتی حمایت ہر وقت اس لیے دسیتاب رہتی ہے تاکہ وہ چین کے خلاف امریکی کی طرف سے جاری مہم کا سرگرم شراکت دار بنا رہے۔ اسی پس منظر میں پاک چین اکنامک کوریڈور کے خلاف وہ متحرک رہتاہے۔حالیہ شنگھائی کانفرنس میں بھی بھارت کے وزیرخارجہ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت جغرافیائی کنیکٹیویٹی کی حمایت کرتا ہے لیکن اپنی علاقائی سالمیت کی پامالی کی قیمت پر نہیں۔ باالفاظ دیگر انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرنے والی پاک چین راہ داری پر اسے قبول نہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کی نگاہ سے عمومی طور پر یہ پہلو اوجھل رہتاہے کہ بھارت میں برسراقتدار طبقہ عالمی حمایت، معاشی ترقی، مالی استحکام اور پاکستان کے داخلی انتشار کی بدولت پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔وہ پاکستان کے ساتھ صرف اپنی شرائط پر مفاہمت چاہتاہے۔ جیسے کہ باجوہ صاحب کے دور میں بھارت کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کشمیر کو منجمند کردے گا اور صرف دوطرفہ تجارت پر توجہ مرکوز رہے گی۔ اسی وجہ سے مودی پاکستان کا دورہ کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں بھارت کے حکمران طبقہ میں زیادہ تر افراد سخت گیر اور جنگجویانہ مزاج رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ وزیرخارجہ جے ایس شنکرنہ صرف نک چڑے اور طاقت کے نشے سے چور چور ہیں بلکہ وہ دنیا بھر کو بھارت کی عزت اور تکریم کا بھاش دیتے ہیں۔پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وہ اکثر توازن کھو دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو پر انہوں نے ذاتی حملے کیے۔وہ اسلام آباد کو دہشت گردوں کا مرکز اور وکیل کہتے ہیں۔ جے ایس شنکر کے کابینہ میں ہمنوا ہیں نیشنل سیکورٹی ایڈوائز اجیت ڈول‘ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی حکومت کو یہ سمجھاتے آئے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں لہٰذا ساری توجہ اسے ’’فکس‘‘ کرنے یعنی اس کا مکھو ٹھپنے پر مرکوز کی جائے۔وزیر داخلہ امیت شاہ جو وزیراعظم مودی کا بازو شمشیر زن ہیں۔ وہ بھی کشمیریا پاکستان کے حوالے سے کسی لچک کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ناسازگار ماحول میں مذاکرات یا مفاہمت کی بھیک مانگنے کے بجائے پاکستان کو کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ روز روز جو پالیسی بدلی جاتی ہے وہ کشمیریوں کو بھی کنفیوژ کردیتی ہے اور داخلی طور پر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرتی ہے۔ کشمیر کے اندر سے آنے والی اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں پرجو خوف طاری کررکھا تھا وہ بتدریج ہوا ہورہاہے۔بھارت نوازکشمیری سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے سے بھی بھارت کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ کشمیریوں کو اپنی شناخت اور مسلم کلچر کے تحفظ کی فکر دامن گیر ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو لوگ تیار نہیں۔تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیر میں امن بحال نہیں ہوسکا۔آئے روزشہریوں یا سرکاری اہلکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ کریک ڈاؤن معمول بن چکا ہے۔ سیاسی لیڈر اور کارکنوں سے بھارتی جیلیں بھری پڑی ہیں۔میڈیا بالخصوص اخبارات کو سرکاری ہینڈ بل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر بھی ہزاروں نوجوانوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کو پرامن دکھانے کے لیے بھرتی گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقائق منظر آتے رہتے ہیں جو اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ کشمیری خوف زدہ ضرور ہیں لیکن مطمئن اور خوش ہرگزز نہیں ہیں۔ کشمیر پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات جیسے امور پر قومی سطح پر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ کشمیر پر ایک دوسرے کو غدار غدار قراردینے کا سلسلہ اب تھم جانا چاہیے ۔ اس موضوع پر ساری قوم ایک پیج ہونی چاہیے۔