گزشتہ ایک دہائی سے خاص طور پرصدرڈونالڈ ٹرمپ کے دورمیں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات محدود گنجائش کے ساتھ ٹرانزیکشنل رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے امریکی صدر کے طور پر اقتدار میں آ نے کے بعد، امریکہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی نوعیت اور مستقبل کے بارے میں مختلف تشریحات پیش کی گئیں۔ تاہم، دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات افغانستان، بھارت اورچین جیسے عناصر کے گرد گھومتے ہیں۔اِس وقت پاکستان دنیا اور خصوصا امریکہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ پاکستان کو بڑی طاقتوں کے مقابلہ کی ایک جگہ کی بجائے پاکستان کے جیو-اقتصادی مقام سے فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح دونوں ممالک اپنے باہمی مفادات اور انکی حقیقی صلاحیت کو تلاش کریں۔ افغانستان اور دہشت گردی جیسے موضوعات دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں اہم موضوعات ہیں، پاکستان اپنے آپ کو امریکہ کی نظر میں اس علاقے کے مثبت کھلاڑی کے طور پر پیش کررہا ہے۔وائٹ ہاؤس نے 22-23 اپریل کو ماحولیات کے ایک عالمی سربراہی ورچوئل اجلاس میں حصہ لینے کے لئے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے مدعو 40 عالمی رہنماؤں کے نام کا اعلان کیا. بہت سے پاکستانی ناخوش تھے کہ وزیراعظم عمران خان اس فہرست میں شامل نہیں تھے. پاکستانیوں نے اسے ایک سوچے سمجھے رجحان کے طور پر پیش کیا جو عالمی سیاست میں پاکستان کے کردارکو کم کرنے کے لئے ایک اشارہ، یا افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے اہداف کے حصول میں اسلام آباد کی مدد حاصل کرنے کے لئے ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھی گئی۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات ابھی نسبتا ہموار ہیں. واشنگٹن، اسلام آباد کو پریشان کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان، افغانستان میں امن عمل کو کامیاب بنانے کے لئے امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے. اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کا حالیہ آغاز اتوار 23 مئی 2021 کو جنیوا میں ہوا ہے جہاں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معی یوسف کی امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقات ہوئی ہے اور ان کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق طرفین عملی تعاون کو آگے بڑھانے پر متفق ہوئے دونوں نے ایک جیسی زبان کا استعمال کیا، جو کہ ایک غیر معمولی اشارہ ہے جس میں مربوط روابط کے قیام کی خواہش کی نشاندہی ہوتی ہے. دونوںکے بیانات نے "دو طرفہ، علاقائی، اور باہمی دلچسپی کے عالمی مسائل" پر بات چیت کی وضاحت کی. صدر بائیڈن کے امریکہ کی صدارت سنبھالنے کے بعد یہ دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطح کا پہلا بالمشافہ رابطہ تھا۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق، قومی سلامتی کے مشیروں کے جنیوا اجلاس کے ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ دو طرفہ تعلقات تھے، لیکن بھارت، افغانستان اور معاشی تعاون جیسے دیگر مسائل جو باہمی تعلقات کو متاثر کرتے ہیں ان پر بھی تفصیلاّ تبادلہ خیال ہوا ہے۔ دریں اثنا، امریکہ اقتصادی تعاون کو بڑھانے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔مستقبل میں پاکستا ن امریکہ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے تجارت اور سرمایہ کاری ممکنہ شعبوں میں سرِفہرست ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کے لیے امریکہ اہم مارکیٹ ہے۔ مسابقتی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کمزور پوزیشن میں ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، پاکستان کورونا وائرس اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے امریکہ کے تعاون کا طلبگار ہے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے اجلاس سے یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجدید تعلقات کی امریکی خواہش افغانستان سے اس کے فوجیوں کے انخلا کے تناظر میں ہے۔ امریکہ اپنی افواج کے انخلا کی بروقت تکمیل کو منظم طریقے سے کرنا چاہتا ہے جبکہ افغانستان کے مسئلے کا اتفاق رائے پر مبنی سیاسی حل چا ہتا ہے. لہذا، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان کو تشدد میں کمی اور معطل شدہ دوحہ مذاکرات کوپھر سے شروع کرنے کے لئے طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ افغانستان میں امن مخالف طاقتوں کے کردار اور آنیوالے عدم استحکام کے بہتر بندوبست کے لیے، پاکستان کو اپنی افغانستان کے متعلق حکمت عملی بنانے میں انتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے. اخباری اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے ہیں تاہم، پاکستان نے انکار کر دیا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے. یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا یہ قدم اپنے عوام میں مقبول نہیں ہو گا، اور اگر اسلام آباد، واشنگٹن کی درخواست پر غور کرتا ہے تواس کے بدلے یہ امریکہ سے بڑی رعایتوں پر اصرار کرے گا- جیسا کہ 2018 سے بند ہونے والی 300ملین ڈالر کی سیکورٹی امداد کی بحالی۔ انڈو پیسفک کے معاملات کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈیوڈ ایف ہیلوئی نے گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی مسلح سروس کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنی بات چیت جاری رکھی ہے کیونکہ افغانستان میں امن بحال کرنے میں اس کا ایک اہم کردار ہے۔ مشرف کے دور سے، پاکستان نے کھلے عام انکار کرنے کے باوجود افغانستان میں امریکی افواج کو سہولت دینے کے لئے امریکہ کو اپنی ہوائی حدود کے استعمال کی اجازت اور فوجی اڈے فراہم کیے۔ تاہم پاکستانی دفترِخارجہ نے، پینٹاگون کے اہلکار کے بیان کہ "پاکستان نے امریکی فوج کو اپنی ہوائی حدود کے استعمال اور زمینی حدود تک رسائی کو استعمال کی اجازت دی ہے تاکہ یہ افغانستان میں اس کی موجودگی کی مدد گار ہوسکے" کے بعد اِس طرح کے کسی بھی معاہدے کی تردید کی ہے۔