امریکی صدر نے طویل انتظار کے بعد بالآخر بذریعہ خط شہباز حکومت کے قیام پر گرم جوشی اور کئی معاملات پر تعاون کے اعادے کا اظہار کیا ہے۔اپنے 17مارچ کے اسی عنوان سے لکھے گئے کالم میں ہم پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کے ایک اجمالی جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ امریکہ جمہوریت کا دشمن ہرگزنہیں ،پاکستان کے باب میں بس کچھ مجبوریاں آڑے آجاتی رہی ہیں۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی تاریخی طور پر واقعاتی (Transactional)رہی ہے۔چنانچہ سرخ آندھی کے خلاف سلک روٹ پر بندباندھنا ہو، گرم پانیوں تک چین کی رسائی کو روکنا ہو، یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، امریکہ کی ہمارے ساتھ دوستی تزویراتی یا ہمہ جہت پارٹنر شپ کی بجائے سیکیورٹی معاملات تک ہی محدود رہی ہے۔چنا نچہ یہ فطری عمل تھا کہ دنیا میں جمہوریت کا علمبردار ہونے کے باوجود ہمارے ہاں امریکیوں نے جہاں جہاں درکار ہوا سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست روابط استوار رکھنے سے اجتناب نہیں برتا۔صدر ایوب کے دور میں پاکستان کمیونزم کے خلاف امریکہ کا کلیدی اتحادی تھا۔ صدر نکسن کے عہدِ صدارت کوپاک امریکہ تعلقات میں گرم جوشی کا دوسرا دَور کہا جا سکتا ہے کہ جب امریکیوں کو چین کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کے لئے ہمارا تعاون درکا رتھا ۔ اس دورمیں بھی امریکی اگرچہ درونِ خانہ ہمیں مشرقی پاکستان کے باب میں سیاسی حل تلاش کئے جانے کا مشورہ دیتے رہے تاہم بظاہرانہیں اکثریتی جماعت کو اقتدار کی منتقلی سے انکار اور بعد ازاں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن سے متعلق بظاہرکوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں تھا۔ بھٹو صاحب کے خلاف بغاوت کے بعد انہیں سزائے موت سنائی گئی تو صدر کارٹر نے جنرل ضیاء کو سزا پر عمل درآمد کے نتیجے میں سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔ تاہم کچھ ہی مہینوں بعد بھٹو کو موت کے گھاٹ اتارنے والے وہی جنرل ضیاء الحق امریکہ کے قریبی اتحادی بن گئے۔ نوے کی دہائی میں امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آنے لگے تو پاکستان میں نواز حکومت بھی خطے میںامریکی اہداف سے ہم آہنگ ہونے کو بے چین تھی ۔ کارگل کے بحران نے بھارت امریکہ گرم جوشی کو تزویراتی اتحاد میں بدل ڈالا تو دوسری طرف صدر کلنٹن ہمارے جنرل مشرف کے ساتھ تصویر تک کھنچوانے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔ تاہم بہت جلد ہم نے دیکھاکہ وہی صدر مشرف امریکیوں کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اپنے گذشتہ کالم میں ہم نے صدر مشرف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد کے اجمالی جائزے میں دیکھا کہ کیسے نئی قائم ہونے والی سویلین حکومت کے ساتھ امریکہ نے ماضی کی ’ملٹری فرسٹ اپروچ‘ کی بجائے ’جامع تعاون‘ کی پالیسی کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیںاور یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں امریکہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ یقینا امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے۔ معاشرے میں انتہا پسندی کاتدارک، انسانی حقوق کی پاسداری اور اظہاررائے کی آزادی دیکھنا چاہتا ہے۔ انہی توقعات کے ساتھ ساتھ مگر امریکی خدشات کا جائزہ لیا جائے تو ہماری کمزور معیشت، ناتواں سیاسی اداروں پر فوجی بغاوت کی ہمہ وقت لٹکتی تلوار، ’پراکسیز‘ کی شکل میں ہمسائیوں کے خلاف عسکری گروہوں کی مبینہ کاروائیاں اور بھارت سے مسلسل محاذ آرائی جیسے عوامل اس کی تشویش کے اسباب نظر آتے ہیں ۔ متشدد یا امریکہ مخالف گروہوں کے اقتدار میں آنے کی صورت میںجوہری ہتھیاروں کا ان کے ہاتھ میں آجانا،امریکی سرزمین پر دہشت گردی، اور آخر میں جیو پولیٹیکل تناظر میں بھارت سے مخاصمت اور چین کی طرف پاکستان میں قرضوں کے ذریعے بھاری سرمایہ کاری اور پاکستان کے راستے گرم سمندر تک اس کی سٹریٹیجک رسائی جیسے معاملات بھی ہمہ وقت امریکی دردسرکے اسباب دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی اور کنٹرول کے مروجہ نظام سے مطمئن ہونے کے باوجود امریکہ انتہا پسندوں کے اقتدار پر قابض ہو جانے کی صورت میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی سلامتی کو لاحق ہونے والے امکانی خطرات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہو یا دہشت گردی کا معاملہ دونوں کے خلاف امریکہ نے نائن الیون کے بعد’ ڈیفنس انسولیشن ‘ کی وسیع چھتری کے نیچے’ ہوم لینڈ سکیورٹی ‘پر خطیر اخراجات کئے ہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پرجدید ڈرونزکے حملوں کے ساتھ ساتھ کروز میزائلوں کا مجوزہ استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پالیسی ساز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے اور ایسے ہی دیگر جارحانہ اقدامات کا تذکرہ بھی پاکستان میں پاکستان ڈیفنس کونسل جیسے شدت پسندوں کے علاوہ امریکی جارحیت کے مخالف عمران خان جیسے مقبول رہنما کو بھی امریکہ مخالف ایندھن فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔ چنانچہ 2008ء کے بعد سے اپنائی جانے والی ’جامع تعاون پالیسی‘ کا بظاہر ایک حدف پاکستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام رہا ہے کہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اورخطے کی جیو پولیٹیکل سکیم میں امریکی احداف سے ہم آہنگ ہو۔عام تاثر کے بر عکس امریکہ نہیںچاہتا کہ پاکستان چین سے مکمل قطع تعلق کر لے اور نا ہی چین کی خواہش ہے کہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات یوں کشیدہ ہو ں کہ وہ شمالی کوریا کی طرح مغرب سے کٹ کر تنہا رہ جائے ۔ خود پاکستان دونوں ممالک سے اپنے تعلقات میں توازن کا خواہش مند ہے۔ امریکہ بہر حال مغربی معاشی اداروں کی جانب سے فراہم کئے گئے فنڈز کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کی توجہ نا صرف افغانستان بلکہ ماضی کے برعکس پاکستان سے بھی ہٹ چکی ہے۔ تاہم ا مریکہ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کا خواہش مند ہے تاکہ بھارت یکسو ہو کر خطے میں چینی خطرے کا سامنااور پاکستان اپنی مغربی سرحدوں پر توجہ مرکوز کر سکے ۔کہا جا سکتا ہے کہ اس باب میںامریکی اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ مالی تعاون اور سکیورٹی اداروں کی براہ راست معاونت کے لئے بھی تیار ہے۔ہمارے وزیرِ خارجہ کے بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کے یکطرفہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اندریں حالات کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں آباد پاکستانی اگرچہ اپنی حالیہ جدوجہد کے نتیجے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل پر ایک’ گانگریشنل ہیئرنگ‘کا انعقاد کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ،تاہم یہ توقع باندھنا کہ امریکی حکومت پاکستان میں جمہوریت، شفاف انتخابات ا ور انسانی حقوق کی پاسداری کی خاطر ہمارے حکمرانوں پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش کرے گی ، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس امر سے قطع نظر کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے یا نہیں ،امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ بائیڈن حکومت اُن کی پشت پر کھڑی اور بھر پور تعاون کے لئے آمادہ رہے گی۔ہم جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی پاسداری کا ہمیشہ سے خواہشمند رہاہے، بس ہر بارکچھ مجبوریاں آڑے آجاتی رہی ہیں۔