موجودہ سال 1973کے آئین کا گولڈن جوبلی سال ہے یعنی اس سال اس کے نفاذ کے پچاس سال مکمل ہورہے ہیںاور یہ اس لحاظ سے تو خوش آئند ہے کہ یہ اپنے پیش رو دو آئین 1956 ( مدت نفاذ تقریبا ڈھائی سال) اور 1962 (مدت نفاذ تقریبا سات سال ) کے مقابلے میں طویل العمر آئین ثابت ہوا ہے۔تاہم اس پہلو سے قطع نظراس موقع پر یہ جائزہ بھی لیا جانا ضروری ہے کہ یہ آئین اپنے مقاصد کی تکمیل میں کس حد تک کامیاب رہا ہے ۔اس کی تشکیل کے وقت اس وقت کی آئین ساز اسمبلی کے پیش نظر جو توقعات تھیں وہ کس حد تک پوری ہو سکیں۔1973کے آئین نے ریاست کی وفاقی پارلیمانی حیثیت کو بحال کرتے ہوئے اس امید کے ساتھ ایک جمہوری سیاسی نظام کی بنیاد رکھی کہ آئین میں موجود شق 6 کی موجودگی کے باعث اب کوئی طاقت ( عسکری ) کی بنیاد پر سیاسی حکومتوں کو بر طرف نہیں کر سکے گا اور سیاسی نظام آئین کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے استحکام حاصل کر پائے گا۔مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، یہ ممکن نہ ہوسکا اورسیاسی نظام استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ جن توقعات کے ساتھ اس آئین کی رہنمائی میں سیاسی نظام کی ابتدا ہوئی تھی وہ چار سال ( اگست 1973 سے مارچ 1977) بھی مکمل نہیں کرپایا۔وقت سے پہلے انتخابات اور اس کے نتائج سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے میں اس وقت کی سیاسی قیادت کے تساہل اور غیر جمہوری سوچ کے باعث حالات سیاسی کشیدگی کی طرف بڑھتے گئے جس سے عسکری قیادت کو یہ موقع ملا کہ وہ جمہوری سیاسی نظام کو لپیٹ کر فوجی حکومت قائم کرلے۔تاہم اس بار آئین کو منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ اسے عارضی طور پر معطل کردیا گیا ۔ یوں آئین تو بچ گیا مگر یہ آئین اپنے سیاسی نظام کو بچانے میں ناکام رہا۔جولائی 1977 میں ماشل لاء کا نفاذ آئینی طور پر کتنا ہی غلط اور قابل مذمت کیوں نہ ہو یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہونی چاہیئے کہ وہ حالات جن میں عسکری قیادت کے لئے ماشل لاء کا نفاذ ممکن ہوا وہ کیوں کرپیداہوئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973 میں ایک متفقہ آئین تو ضرور دیا مگر اس آئین کے مطابق ریاست میں جمہوری سیاست کو فروغ دینے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔وقت سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اگرچہ سیاسی نظام پر ان کے بھرپور اعتماد کا مظہر تھا ۔ مگر انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے حکومتی سطح پر جس طرح سیاسی اور انتظامی اقدامات کے گئے ان سے پورا انتخابی عمل شدید تنقید کی زد میں آگیا۔یہ ہی وہ بنیادی غلطی تھی جو اس وقت کی سیاسی حکومت سے سرزد ہوئی ۔ ذوالفقارعلی بھٹو ایک مقبول سیاسی جماعت کے قائد تھے ان کی سیاسی حیثیت مستحکم تھی انتخابات میں ان کی کامیابی کے واضح امکانات موجودتھے اگر انتخابی عمل کو شفاف اور آزادانہ ممکن بنالیا جاتا تو اقتدار کی منتقلی یا تسلسل کے ذریعہ جمہوری سیاسی عمل کو استحکام حاصل ہوتا۔مگر اس وقت کی سیاسی حکومت کے غیر جمہوری رویوں کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔اور نتیجہ سیاسی نظام کے انہدام کی صورت سامنے آیا۔ اور یوں 1973 کے آئین کی خالق پارلیمنٹ اور اس کے نتیجہ میں قائم سیاسی حکومت محض چار سال ہی چل سکی۔یہ ناکامی آئین کی نہیں تھی بلکہ اس آئین کے تحت قائم پارلیمنٹ اور حکومت کی ناکامی تھی جو سیاسی استحکام کے لئے درست جمہوری رویہ ختیار کرنے میں ناکام رہی۔ سیاسی حکومت کی اس روش سے آئینی تقاضے نظر انداز ہوئے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ اسے بر وقت روکنے میں ناکام رہے۔ آئین میں سیاسی اداروں کے تحفظ کی ضمانت کے باوجود اعلی عدالتیں نہ صرف یہ کہ ماشل لاء کا راستہ روک سکیں بلکہ ا س کے برعکس فو ج کے غیر آئینی عمل کو قانونی جواز فراہم کرتی رہیں اور پھر آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ وقفہ وقفہ سے ہوتا رہا ۔آئین ایک رہنما دستاویز کی صورت ریاست کی منزل اور راستوں کا تعین کرتا ہے۔ حکمرانی کے قواعد و ضوابط طے کرتا ہے جن پر پوری طرح عمل کرنے سے ہی سیاسی نظام کامیابی سے آگے بڑھتا ہے۔ مگر پاکستان میں سیاسی حکومت ہو یا فوجی حکومت ہر ایک نے آئینی تقاضوں کے مطابق حکومت کرنے کے بجائے آئین کو اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کے مطابق تبدیل کرنے کو سہل سمجھا ہے۔آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم ہر بار حکمرانوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ آئین کا حلیہ ہی بگاڑا ہے ۔ایک وفاقی پارلیمانی آئین کو نیم صدارتی آئین میں بدلا جاتا رہااور ہر بار عدلیہ اور پارلیمنٹ سے ، کبھی بامر مجبوری تو کبھی برضا و رغبت ، اسے قبولیت کی سند جاری ہوتی رہی۔ سیا سی اور ریاستی ادارے آئین کے مطابق اپنے وظائف انجام دینے کے پابند ہیں اس سے انحراف کا نتیجہ پورے ریاستی نظام کا بگاڑ ہے۔موجودہ صورتحال ،جس میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان شدید محاذ آرائی جاری ہے ، اسی کیفیت کا اظہار ہے ۔ ہر دو اداروں کی جانب سے آئین کی پاسداری کے دعوے کے باوجود پورا سیاسی اور ریاستی نظام غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔آئین کے مندرجات کا بنیادی مقصد اداروں کے مابین وظائفی ارتباط ( FUNCTIONAL COORDINATION ) کو قائم کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی طور بھی وظائفی تصادم ( FUNCTIONAL CONFRONTATION )کی فضا موجودگی ۔محض آئین کی عمرکہولت اس کی کامیابی نہیں ۔آئین کی کامیابی اداروں کے استحکام اور ان کے مطلوبہ وظائف کی احسن طریقے سے ادائیگی میں ہے۔اس تناظر میں اگر پاکستان کی آئینی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پارلیمنٹ اور عدلیہ ہر دو اداروں کی کارکردگی نے آئینی اقدار اور اس کے تقاضوں کو نظر انداز ہی کیا ہے ۔ وہ ادارے جو آئین تقاضوں کو پورا کرنے کے ذمہ دار تھے وہ پچاس سالہ سفر میں اپنے آئینی وظائف پورے کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں اداروں اور مناصب کے مابین اختیارات کی کشمکش اور مداخلت کے شدید رجحانات موجود رہے ہیں۔آئینی حدود سے متجاوز ان رجحانات کی بیخ کنی جن اداروں کو کرنا چاہیئے تھی بد قسمتی سے وہ خود اس کے مرتکب ہوئے یا پھر ان رجحانات کے سہولت کار بنتے رہے۔آج پاکستان کے دو بنیادی اداروں کے درمیان تصادم کی جو فضا نظر آرہی ہے اور جس کے باعث آئینی بحران ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں اگر اس تصادم کو روکا نہیں گیا تو پھر سیاسی نظام کی تباہی کو روکنا محال ہوجائے گا۔آئین کو محض ایک مقدس دستاویز کی شکل میں اداروں کی الماریوں میں محفوظ رکھنا کوئی کمال نہیں بلکہ اس کے تقاضوں کے مطابق اداراتی وظائف کی ادائیگی اور اداروں کے مابین ہم آہنگی قائم رکھنا ہی اس کا بنیادی تقاضہ ہے جسے اب تک بری طرح نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ المیہ یہ کہ پچاس سال کے اس سفر میں بار بار ٹھوکریں کھانے کے باوجود ادارے آئین کے طے شدہ راستوں کے مطابق آج بھی چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں !!